اگر حیض کا خون دو دن کیلئے رک جائے تو عبادات کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4566
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ مجھے حیض کا خون 2 دن آتا ہے اور رک جاتا ہے۔ جب غسل کر لوں‌ تو پھر کپڑوں کے ساتھ داغ لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں غسل اور دیگر عبادات کے احکام کیا ہوں‌ گے؟

  • سائل: عائشہ ملکمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 دسمبر 2017ء

زمرہ: حیض

جواب:

احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین (3) دن اور تین (3) راتیں، جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دس (10) دن اور دس (10) راتیں ہے۔ حنفی علماء درج ذیل احادیث مبارکہ کی بنیاد پر مدت حیض کا تعین کرتے ہیں:

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ: لَا یَکُونُ الْحَیْضُ لِلْجَارِیَةِ وَالثَّیِّبِ الَّتِي قَدْ أَیِسَتْ مِنَ الْحَیْضِ أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ وَلَا أَکْثَرَ مِنْ عَشَرَةِ أَیَّامٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ فَوْقَ عَشَرَةِ أَیَّامٍ فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ فَمَا زَادَ عَلَی أَیَّامِ أَقْرَائِهَا قَضَتْ، وَدَمُ الْحَیْضِ أَسْوَدُ خَاثِرٌ تَعْلُوهُ حُمْرَةٌ، وَدَمُ الْمُسْتَحَاضَةِ أَصْفَرُ رَقِیقٌ.

حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کنواری اور شادی شدہ عورت کا حیض تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا، دس دن کے بعد نکلنے والا خون استحاضہ ہے۔ حائضہ ایام حیض کے بعد کی نمازوں کی قضا کرے۔ حیض میں سرخی مائل سیاہ گاڑھا خون ہوتا ہے اور استحاضہ میں زرد رنگ کا پتلا خون ہوتا ہے۔

دار قطني، السنن، 1: 218، رقم: 59، بیروت: دار المعرفة

ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲ أَقَلُّ الْحَیْضِ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ وَأَکْثَرَهُ عَشَرَةُ أَیَّامٍ.

حضرت اسقع بن واثلہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حیض کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہوتا ہے۔

دار قطني، السنن، 1: 219، رقم: 61

ان کے علاوہ بھی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ l اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حیض کی مدت تین دن سے دس دن تک ہے۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:

أَقَلُّ الْحَیْضِ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیهَا، وَمَا نَقَصَ مِنْ ذَلِکَ فَهُوَ اسْتِحَاضَةٌ.

اور حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین راتیں ہیں اور جو اس سے کم ہو وہ استحاضہ ہے۔

مرغیناني، الهدایۃ شرح البدایة، 1: 30، بیروت: المکتبة الاسلامیة

فقہ حنفی کے ایک اور عظیم المرتبت امام علامہ شامی اس کی وضاحت اس انداز سے کرتے ہیں:

اگر کسی خاتون کو ماہواری کا خون تین (3) دن کے لیے آئے مگر تین (3) راتیں پوری نہ ہوئی ہوں، جیسے جمعہ کی صبح خون آنا شروع ہوا اور اتوار کی مغرب کو بند ہوگیا، تب بھی یہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔ اگر تین(3) دن رات سے ذرا بھی کم ہو گیا تو وہ حیض نہیں ہوگا۔ جیسے جمعہ کو سورج نکلتے وقت خون آیا اور پیر کی صبح سورج نکلنے سے پہلے بند ہوگیا تو وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہوگا۔

ابن عابدین، ردالمحتار، 1: 284، بیروت: دار الفکر

لہٰذا احناف کے نزدیک تین دن اور تین راتوں سے کم حیض نہیں ہے مگر مدت حیض میں خون شروع ہو کر درمیان میں رک کر دوبارہ خون جاری ہونے کے بارے میں صاحب ہدایہ احناف کا موقف بیان کرتے ہیں:

وَالطُّهْرُ إذَا تَخَلَّلَ بَیْنَ الدَّمَیْنِ فِي مُدَّةِ الْحَیْضِ فَهُوَ کَالدَّمِ الْمُتَوَالِی قَالَ: وَهَذِهِ إحْدَی الرِّوَایَاتِ عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ رَحِمَهُ اﷲُ وَوَجْهُهُ أَنَّ اسْتِیعَابَ الدَّمِ مُدَّةَ الْحَیْضِ لَیْسَ بِشَرْطٍ بِالْإِجْمَاعِ فَیُعْتَبَرُ أَوَّلُهُ وَآخِرُهُ کَالنِّصَابِ فِي بَابِ الزَّکَاةِ.

اور وہ طہر جو دو خونوں کے درمیان متخلل (خلل انداز) ہو وہ بھی مسلسل آنے والے خون کی طرح ہے، صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے مروی روایات میں سے ایک روایت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خون کا پوری مدتِ حیض کو گھیرنا بالاجماع شرط نہیں ہے، لہٰذا اس کے اول اور آخر کا اعتبار کیا جائے گا، جیسے زکوٰۃ کے باب میں نصاب ہے۔

مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 1: 32، بیروت: المکتبة الاسلامیة

اس لیے اگر حیض کے ایام میں چار دن خون آنے کے بعد دو دن کے لیے بند ہو جاتا ہے اور پھر آنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ تمام مدت حیض ہی شمار ہوگی۔ حیض کا ایک دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے کی کم سے کم مدت پندرہ (15) دن ہے۔ اگر پندرہ (15) دن سے پہلے خون آجائے تو وہ استخاضہ شمار کیا جائے گا۔ اس صورت میں جسم اور کپڑوں کو پاک کر کے عبادات بھی کی جائیں گی اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کر کے نماز ادا کی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری