طلاق صریح سے پہلے کنایہ الفاظ سے طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4556
اlسلام علیکم! مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلے کے بارے میں کے زید کا فون پر بیوی سے جھگڑا ہو رہا تھا تب زید نے غصے میں قسم کھائی کہ وہ طلاق دے گا۔ کافی دیر تک جھگڑا ہوتا رہا۔ تب زید نے صاف الفاظ میں کہا کہ: میں نے تمہیں طلاق دی اور باقی دو بعد میں دوں گا‘ اور کال کاٹ دی۔ زید کی بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ پھر زید کی بیوی کے بھائی کا فون آیا جو حافظ قرآن ہے اس نے زید سے پوچھا کہ اس نے اپنی بیوی کو کیا الفاظ بولے ہیں؟ تو زید نے کہا کہ اس نے قسم کھائی طلاق دینے کی اور ایک طلاق دی ہے۔ تب اس نے کہا کہ لڑکی کہتی ہے کہ تم نے یہ بھی کہا کہ ’تم میری طرف سے آزاد ہو‘۔ تب زید کو یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ الفاظ بولے ہیں یا نہیں۔ تو لڑکی کا بھائی کہنے لگا کہ ان الفاظ سے کچھ نہیں ہوتا ویسے پوچھ رہا ہوں اور زید نے ہاں میں جواب دے دیا۔ لیکن زید قسم کھاتا ہے کے اس کو نہیں یاد کے اس نے یہ الفاظ بولے یا نہیں۔ اب زید کو اسلام کی رو سے یہ جاننا ہے کے زید نے جو ہاں کی ہے اس سے طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟

  • سائل: راشدمقام: میلسی
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2017ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق کنایہ  |  طلاق صریح

جواب:

یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے اس لیے اچھی طرح تحقیق کر لیں‌ کہ کیا الفاظ بولے ہیں‌ اور کتنی بار بولے ہیں۔ بیوی کو ’تم میری طرف سے آزاد ہو‘ کہنے سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور نکاح‌ فوراً ختم ہو جاتا ہے جس کے بعد بغیر تجدیدِ نکاح کے رجوع جائز نہیں‌ ہوتا۔ اگر آپ نے یہ جملہ طلاق دینے سے پہلے بولا ہے تو ایک طلاقِ‌ بائن واقع ہوئی ہے اور نکاح‌ ختم ہونے کی وجہ سے بعد میں دی گئی صریح طلاق واقع نہیں‌ ہوئی۔ اگر پہلے صریح الفاظ میں طلاق دی ہے اور بعد میں مذکورہ جملہ بولا ہے تو دوبار طلاق واقع ہو چکی ہے۔ بیوی کے بھائی کے سوال کے جواب میں‌ ’ہاں‘ کہہ کر زید نے بیوی کے بیان کی تصدیق کر دی ہے اس لیے بیوی کا بیان معتبر ہے۔ طلاق ایک ہوئی ہے یا دو‘ اس کا اعتبار کنایہ کے الفاظ طلاقِ صریح سے پہلے یا بعد میں بولے جانے پر ہوگا، لیکن دونوں صورتوں میں‌ رجوع کے لیے تجدید نکاح لازم ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری