جواب:
اگر کوئی عاقل و بالغ لڑکا اور لڑکی‘ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں حق مہر کے عوض ایجاب وقبول کرتے ہیں تو ان کا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ نکاح کے وقت دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں حق مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرنا‘ نکاح کی لازمی شرائط ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائیوں کی نکاح میں رضامندی یا مجلسِ نکاح میں شمولیت ایک سماجی اور معاشرتی ضرورت ہے، کوئی قانونی تقاضا نہیں۔ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا حتمی اختیار لڑکی کو ہی حاصل ہے۔ قرآن کریم میں نکاح کی نسبت صرف لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے، تاہم احادیث مبارکہ کے مطابق باپ، دادا، بھائی یا دوسرے بزرگوں کے مشورے کو بھی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ’لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ‘ (کوئی شادی ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہیے) اور اس طرح کی دوسری روایات اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ہر عاقل بالغ لڑکے، لڑکی کو جس طرح اپنے مال میں تصرف کا حق ہے اسی طرح اپنی ذات کے فیصلوں کا بھی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں.
النساء، 4: 3
درج بالا آیت میں نکاح کی نسبت لڑکے کی طرف کی گئی ہے، جبکہ درج ذیل آیت میں نکاح کی نسبت لڑکی کی طرف کی گئی ہے‘ ولی کی طرف نہیں:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں س کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
البقره، 2: 234
لڑکی کے اختیارِ نکاح کو بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔
البقره، 2: 230
اور فرمایا:
فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
جب وہ (طلاق یافتہ عورتیں) شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو.
البقره، 2: 232
حضرت نافع ابن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
قال رسول الله الایم احق بنفسها من ولیها والبکر تستامر واذنها سکوتها وفی روایة الثیب احق بنفسها من ولیها.
(نصب الروایه، جلد 3، صفحه 182)
’’بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے۔‘‘
اسی موضوع کی ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے کہ:
لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر تستاذن. قالو! یارسول اﷲ کیف اذنها قال ان تسکت. متفق علیہ
’’غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام نے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ شرماتی ہے تو) اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہے‘‘
ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
فذهبوا جمعیا الی انه لا یجوز تزویج البالغة العاقلة دون اذنها.
’’علماء نے احدیث سے یہ اصول لیا ہے کہ عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں‘‘
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی میری باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا۔
فخیرها النبي صلی ﷲ علیه وسلم.
تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لڑکی کو (قبول یا رد کرنے کا اختیار دے دیا)۔
ایسا ہی واقعہ خنساء بنت خذام سے پیش آیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نکاح رد کردیا۔
یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عاقل و بالغ لڑکا، لڑکی خود مختار ہیں اور اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں‘ کوئی ان پر جبر نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دوسرے پہلو کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ والدین کے جائز جذبات و خواہشات کا لحاظ و پاس رکھنا بھی ممکن حد تک لازم ہے۔ یہ بات بڑی شقاوت و سنگدلی ہے کہ جن والدین کی محنت و محبت سے انسان پلتا بڑھتا اور ترقی کرتا ہے بیاہ شادی کے معاملہ میں ان کی رضامندی و مشورے کو اہمیت ہی نہ دی جائے اور ان کو اس موقع پر ناراض کر دیا جائے۔ اس لیے ان کے حقوق و جذبات اور احساسات کا خیال رکھانا اور ان سے رہنمائی لینا خوش بختی ہے، اس حقیقت کو آقا علیہ السلام نے ان ارشادات میں واضح فرمایا:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل. فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجر وا فالسلطان ولی من لاولی له.
احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی
’’جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘
احناف کے نزدیک عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے اور قرآن و حدیث کے تمام دلائل اس کی تائید کرتے ہیں۔ درج بالا حدیث میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل‘ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے، مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی ہوجاتا ہے اسی لیے فرمایا: اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی نہ نکاح ہوتا نہ حق مہر لازم ہوتا۔
عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
عدالتی نکاح (court marriage) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔