کیا صوفیاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد کسی نبی کا احتمال رکھتے ہیں؟


سوال نمبر:4525
السلام علیکم مفتی صاحب! کچھ علماء کا یہ علمی مؤقف رہا ہے کہ اگر کوئی نیا نبی آ بھی جائے تو ختمِ نبوت پر کوئی اثر نہیں‌ پڑتا۔ ابنِ‌ عربی، مجدد الف ثانی، ملا علی قاری، عبدالقادر شورانی اور مولانا قاسم نانوتوی جیسے علماء اسی بات کے قائل ہیں۔ کیا یہ مؤقف درست ہے؟

  • سائل: عمران سعیدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 26 دسمبر 2017ء

زمرہ: ختم نبوت

جواب:

شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی، حضرت مجدد الف ثانی، ملا علی قاری، امام عبدالوہاب شعرانی سمیت تمام آئمہ و علماء اور امت مسلمہ کے عوام و خواص اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں اور آپ کے بعد کسی بھی معنیٰ میں نبوت کا دعویٰ کرنے والا اور اس کے اس دعوے کو ماننے والا بالاجماع کافر ہے۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’عقیدہ ختم نبوت‘ کا پانچواں باب ’عقیدہ ختمِ نبوت پر آئمہ و محدثین کا مؤقف‘ ملاحظہ کیجیے۔

 حضرت ابوہریرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوشخبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا: خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نیک خواب۔

(صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث: 6990)

صوفیائے کرام کے نزدیک بھی ختم نبوت کے معنی یہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو بھی امر و نہی کے ساتھ مخاطب نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی کو نبوت و رسالت اور شریعت دی جائے گی۔ محمد رسول اللہ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولیاء اللہ اور عباد الصالحین کی راہنمائی کی جاتی ہے جسے مذکورہ حدیث میں ’مبشرات‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے علماء و صوفیاء نے فیضانِ نبوت قرار دیا ہے، مگر اس سے دین میں کسی شے کا اضافہ یا کمی نہیں ہوتی۔ جو شخص رسول اللہ کے بعد اس بات کا دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی بات کا امر فرمایا ہے یا کسی نہی سے مخاطب کیا ہے تو ایسا شخص مدعی نبوت و شریعت ہے۔ اگر وہ احکام شرع کا مکلف ہے تو ایسے شخص کی گردن مار دی جائے گی۔ امام شعرانی فتوحاتِ مکیہ سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل فرماتے ہیں:

وقال الشیخ ایضًا فی الباب الحادی والعشرین من الفتوحات من قال ان اللّٰه تعالٰی امره بشیء فلیس ذٰلک بصحیح انما ذالک تلبیس لان الامر من قسم الکلام وصفتهٖ وذالک باب مسدود دون الناس.

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فتوحاتِ مکیہ کے اکیسویں باب میں فرماتے ہیں جو شخص اس بات کا دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کوئی امر فرمایا ہے تو یہ ہرگز صحیح نہیں، یہ تلبیس ابلیس ہے۔ اس لئے کہ امر کلام کی قسم سے ہے اور یہ دروازہ لوگوں پر بند ہے۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

فقد بان لک ان ابواب الاوامر الالٰهیة والنواهی قد سدت وکل من ادعاها بعد محمد ا فهو مدع شریعة اوحی لها الیه سواء وافق شرعنا او خالف فان کان مکلفا ضربنا عنقهٗ والاضربنا عنه صفحا.

یہ بات تم پر بخوبی واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی اس امر کا مدعی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے امر و نہی پہنچا ہے وہ مدعی شریعت ہے عام اس سے کہ جن اوامر و نواہی کا وہ مدعی ہے وہ ہماری شرع کے موافق ہو یا مخالف، وہ بہرکیف مدعی شریعت ہی قرار پائے گا۔ اگر وہ عاقل و بالغ ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں گے ورنہ اس سے پہلو تہی کریں گے۔

(الیواقیت و الجواهر، 2: 34، مصر)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی فتوحاتِ مکیہ اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی ان تصریحات سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ جو شخص اس امر کا مدعی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے امر و نہی کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے وہ مدعی شریعت ہے اور جو مدعئ شریعت ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری