جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر میں دوقومیں ہندو اور مسلمان صدیوں تک اکٹھے رہتے آئے ہیں۔ دونوں اپنی جگہ مستقل وجود رکھتے ہیں۔ دونوں کو امن، رواداری اور احترامِ باہمی کے اصول پر رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں قوموں میں موجود بداعتمادی اور نفرت کو کم کرنے کی کوشش میں بھی کوئی برائی نہیں۔ لیکن جو شخص رمضان سے رام اور دیوالی میں علی ڈھونڈ رہا ہے اس کی یہ کوشش اور اس کا یہ جملہ یہوہ گوئی و جہالت ہے۔ جو بھی ایسی مماثلتوں میں کوئی تعلق قائم کرتا ہے لغو کام کرتا ہے۔
ایسی مماثلتیں تلاش کرنے کی بجائے ہر ایک کے عقیدے کا اختلاف کے باوجود احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ انسان اس بارے میں کلیتاََ آزاد ہے کہ اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہیے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات پر چاہیے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کر ے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم و تعدی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا صرف ایک طریق ہے کہ امن و سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہء نظر کو دیانتداری سے سنا جائے اور جو بات ہمارے نزدیک درست نہ ہو بڑے احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جائے۔ مضبوط دلائل سے اپنے مذہب کی حقانیت واضح کی جائے اور دوسرے کے کے نقطہ نظر یا عقیدہ کے نقائص کو ہمدردانہ انداز میں سامنے لایا جائے۔ بےجا الزامات سے گریز کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے نفرت بڑھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہمارے نظریات اور محترم شخصیات کو بُرا بھلا کہا جائے، ہمیں بھی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چا ہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔