سوال نمبر:4459
السلام علیکم! علماء کرام کیا فرماتے ہیں اس بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی جب وہ شاید دو مہینے کی حاملہ تھی طلاق دینے کے پانچ دن بعد حمل ضائع ہو گیا اور اس بیچ رجوع نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں نے طلاق کے پیپر بنوائے جس میں تین طلاق لکھوائی اب مجھے اسلام کی رو سے یہ جاننا ہے کے مکمل طلاق ہو گئی یا حمل ضائع ہونے کے بعد کوئی طلاق نہ ہو گی؟ ہم نے کراچی سے ایک سکالر سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کے اگر حمل کے دوران بچے کے اعضا بن جاتے اور تب حمل ضائع ہوتا تب عدت طلاق ختم ہو جاتی بچے کے اعضا چونکہ اسی سے نوے دن میں بنتے ہیں اس لیے دو ماہ کے حمل ضائع ہونے کے بعد عدت طلاق ختم نہیں ہوئی اس لیے بعد والی طلاق بھی واقع ہو گئی ہے۔ مجھے آپ سے بھی یہ ہی جاننا ہے کہ کیا واقعی مکمل طلاق واقع ہو گئی ہے؟براہ مہربانی شریعت کی رو سے حوالے کے ساتھ اس مسلے کا حل بتائیں۔
- سائل: محمد اسلممقام: وہاڑی
- تاریخ اشاعت: 21 اکتوبر 2017ء
جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے حاملہ کی عدّت‘ وضعِ حمل کو قرار دیا ہے، اس کی وضاحت
کے لیے ملاحظہ کیجیے:
حاملہ کی
عدت کتنی ہے؟
قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس بات کی تخصیص نہیں کی گئی کہ حمل کتنے عرصے کا ہو تو
اسے عدت شمار کیا جائے، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اسی نوے دن سے کم والی کو حاملہ شمار
نہ کیا جائے۔ جس شخص نے بھی ایسا دعویٰ کیا ہے اسے اس سلسلے میں دلیل پیش کرنی چاہیے۔
طلاق رجعی کے بعد وضعِ حمل سے عدت ختم ہوگئی تھی جس کے بعد دی گئی طلاقیں واقع نہیں
ہوئیں، کیونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح بھی ختم ہو گیا اور بیوی محلِ طلاق نہیں رہی۔ اس
لیے نکاح ختم ہونے کے بعد دی گئی طلاقیں فضول ہیں۔ زوجین تجدید نکاح کر کے دوبارہ اکٹھے
رہ سکتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا اسقاطِ
حمل سے حاملہ مطلقہ کی عدت مکمل ہو جاتی ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔