ملازمت کے حصول کے لیے اہلیت کے باوجود رشوت دینا کیسا ہے؟


سوال نمبر:4449
السلام علیکم! سرکاری محکمے میں ایک جگہ 10ویں سکیل میں نوکری مل رہی ہے لیکن وہاں ساتھ میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ بھی طلب کیا جا رہا ہے۔ نوکری کے لیے میری قابلیت مکمل ہے مگر باوجود اس کے پیسے طلب کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ پیسے دینے پر گنہگار ہوں گا؟

  • سائل: رضوان خواجہمقام: جموں کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 10 اکتوبر 2017ء

زمرہ: رشوت

جواب:

ہر وہ شئے جو جائز یا ناجائز مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی اہل منصب کودیاجائے‘ رشوت کہلاتا ہے۔

مجمع البحارمیں علامہ فتنی نے رشوت کی تعریف کی ہے کہ:

”رشوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی باطل غرض اور ناحق مطالبہ کے پورا کرنے کے لیے کسی ذی اختیار یا کارپرداز شخص کوکچھ دے“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش“

رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔

طبرانی، المعجم الکبیر: 1415

رشوت خوروں کے متعلق ارشاد ربانی ہے:

أَکَّالُونَ لِلسُّحْت

یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں۔

(المائده: 42)

سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا:

فَیُسحتکم بعذاب.

 یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ، بنیاد ختم کر دی جائے گی۔ قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد رشوت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، مجاہد، قتادہ اور ضحاک وغیرہ رضی اللہ عنہم آئمہ تفسیر نے اس کی تفسیر رشوت کی ہے۔

رشوت کو سُحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے، بلکہ پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانونِ ملک ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو، نہ مال۔ اس لیے شریعتِ اسلام میں اس کو سُحت فرماکر اشد حرام قرار دیا ہے اور اس کے دروازہ کو بند کرنے کے لیے امراء وحکام کو ہدیے اور تحفے پیش کیے جاتے ہیں، ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کر دیا گیا ہے۔

رشوت لینے اوردینے والے دونوں شخص گناہ و سزا کے مستحق اس وقت ہوں گے، جب کہ دونوں کا مقصد باطل اور ناحق کی حمایت کرنا ہو، کسی پر ظلم کرنا یا کرانا ہو یا شرعی حکم کی پامالی ہو، مثلاً ایک شخص جس کا ایک چیز میں شرعاً کوئی حق نہیں بنتا، وہ صاحب اختیار کو رشوت دے کراپنے حق میں فیصلہ کرا لیتاہے یا ایک چیز ایک شخص کی ملکیت یا اس کا حق ہے، اس کے پاس ثبوت بھی ہیں، جو اس نے فراہم کردیے، مگردوسراشخص رشوت کے زور پر صاحب اختیار سے اس کے خلاف فیصلہ کرا لیتاہے، تاکہ حق دار کواس کاحق نہ مل سکے، مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ رشوت دینا بلاشبہ لعنت کا سبب ہے۔

اسی طرح رشوت لینے والا شخص بھی وعید کا مصداق اس وقت ہوگا، جب اس نے ایسے حق یاعمل کی انجام دہی پر رشوت لی ہو جو اس کے اوپر ازروئے شریعت واجب ہے، یا وہ کوئی کام ایسا کر رہا ہے، جس کے کرنے کا کوئی جواز نہیں اور دوسرے کا اس سے نقصان ہو رہا ہے، جب تک اس کی مٹھی گرم نہ کی جائے، وہ اپنے اس ناحق عمل سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ ہو، مندرجہ بالاحدیث کی روشنی میں ایساشخص ملعون ہے۔

البتہ ایک شخص کاحق ہے کہ جواسے ملناچاہیے، رشوت دیے بغیر نہیں ملے گا، یا اتنی دیرسے ملے گا، جس میں اسے غیرمعمولی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح اس کے اوپر کسی فردکی طرف سے ظالمانہ مطالبات عائد ہوگئے ہیں اور رشوت دیے بغیر ان سے خلاصی مشکل ہے تو امید ہے کہ دینے والا شخص گنہگار نہ ہوگا، البتہ دیانت شرط ہے جس کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی۔ اسی طرح ایک شخص حکام اور ارباب اختیار کے نزدیک اپنی ذاتی وجاہت کی وجہ سے باحیثیت مانا جاتا ہے، اگرایسے شخص کے ذریعے اپنا جائز حق وصول کرنے کے لیے حاکم تک رسائی حاصل کی جائے اور وہ شخص جس پر اس کام کی شرعاً کوئی ذمہ داری نہیں ہے، حق الخدمت کے طور پر کچھ وصول کرتا ہے تو یہ اس کے لیے حلال ہوگا، کیونکہ یہ نہ تو باطل کی اعانت ہے نہ کسی پرظلم ہے اورنہ ہی اس پر یہ کام کرنا ازروئے شریعت واجب ہے، لیکن نہ لینا موجب اجر و ثواب ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

مجبوری میں رشوت دینے کا کیا حکم ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری