جواب:
ہر کام موقع کی مناسبت سے ہی درست ہوتا ہے۔ ایک کام خوشی کے موقع پر درست ہوتا ہے وہی کام غمی کے موقع ہر غیردرست ہوجاتا ہے۔ کسی ایک واقعہ یا اثر کو بنیاد بنا کر حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ شریعتِ مطاہرہ نے شادی بیاہ اور خوشی کے موقع پر دف بجانے اور حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے گانے کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف موسیقی سے روکا بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ مواقع پر موسیقی کی اجازت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ 24 گھنٹے اسی کام میں لگے رہیں۔ اسی طرح ایک طرف نماز ہو رہی ہو اور دوسری طرف بانسری یا دف بجا رہے ہوں یا ایک طرف میت پڑی ہو دوسری طرف ہمسائے بانسری بجا رہے ہوں‘ تو اسے کوئی بھی مناسب عمل نہیں کہے گا۔ اس لیے کچھ مواقع پر حد کے اندر رہتے ہوئے آلات موسیقی استعمال کرنے اور اچھا کلام گانے کی اجازت ہے۔
جس روایت کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
عَنْ نَافِعٍ قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا، قَالَ : فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ ، وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَقَالَ لِي: يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ فَقُلْتُ: لا. قَالَ: فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ. وَقَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسِمَعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا.
حضرت نافع بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (سر راہ) بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں پر انگلیاں رکھ لیں اور راستے سے دور ہو گئے۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا: نافع تمھیں کوئی آواز آ رہی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے اپنے کانوں سے انگلیاں اٹھا لیں۔ پھر انھوں نے کہا: ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا تو آپ نے بانسری کی آواز سن کر ایساہی کیا تھا۔
السماع لابن القيسراني، رقم الحديث: 32
اس روایت سے بانسری یا موسیقی کی حرمت پر استدلال درست نہیں ہے۔ اگر بانسری بجانا یا اس کی آواز سننا حرام ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جس طرح خود کان بند کر لیے اسی طرح اپنے ہمراہی حضرت نافع کو بھی کان بند کرنے کا حکم دیتے۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات کی توقع محال ہے کہ وہ حرمت کے درجے کی چیز سے خود تو محفوظ ہو جائیں اور اپنے ساتھی کو اس کی ترغیب نہ دیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس موقع پر بانسری کی حرمت یا کراہت کے حوالے سے کوئی الفاظ نہیں کہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اپنا ایک مشاہدہ نقل کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے حوالے سے نہ کراہت کا تاثر بیان کیا ہے اور نہ حرمت یا کا کوئی جملہ آپ سے منسوب کیا ہے۔
بانسری کی آواز سن کر کانوں پرہاتھ رکھنے کی ممکنہ وجوہات کئی ہوسکتی ہیں‘ جیسے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذاتی طور پربانسری ناپسند تھی یا اس کی آواز اس قدر قریب سے آئی کہ آپ کو الجھن محسوس ہوئی یا بجانے والے نے اسے بے ہنگم طریقے سے بجایا یا اس نے کوئی ایسی دھن اختیار کی جوشرک کے حوالے سے معروف تھی یا اس نے کوئی ایسی دھن اختیار کی جو فحش گانوں کے ساتھ مشہور تھی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کسی بات پر غور فرما رہے ہوں اور بانسری کی آواز نے توجہ کھینچ لی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانسری کی آواز کو شرعی طور پر مکروہ بتانا چاہ رہے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے شرعی طور پر علی الاطلاق حرام بتانا چاہتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بعض مخصوص صورتوں کوحرام قرار دینا چاہتے تھے۔ اس تفصیل سے فقط یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ چونکہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی نہ علت بیان ہوئی ہے اور نہ حرمت کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، اس لیے اس سے حرمت کا یقینی مفہوم اخذ کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔
موضوع کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔