جواب:
جس طرح علیم، سمیع، بصیر، خبیر اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اسی طرح ہنسنا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مگر یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت کے مطابق ہیں۔ اس کی کوئی صفت مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا فرمان ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ.
اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔
الشُّوْرٰی، 42: 11
جن روایات میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا تذکرہ ہوا ہے ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ ﷲِ قَالَ یَضْحَکُ ﷲُ إِلَی رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ یَدْخُلَانِ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِیلِ ﷲِ فَیُقْتَلُ ثُمَّ یَتُوبُ ﷲُ عَلَی الْقَاتِلِ فَیُسْتَشْهَدُ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر (اپنی شان کے مطابق) ہنستا ہے حالانکہ انہوں نے ایک دوسرے سے جنگ کی ہوگی اور دونوں جنت میں جائیں گے۔ ایک ان میں سے اللہ کی راہ میں لڑکر قتل ہوا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق بخش دی اور (مسلمان ہوکر) شہادت پاگیا۔
یعنی ایک شخص نے کفر کی حالت میں مسلمان شخص کو شہید کیا تو شہادت پانے والا وہ جنت میں جائے گا اور بعد میں قاتل بھی مسلمان ہو کر شہید ہو گا تو وہ بھی جنت میں جائے گا۔ اسی طرح ایک طویل حدیث مبارکہ میں بہت ایمان افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں ایک شخص کو دیکھ اﷲ تعالیٰ کو ہنسی آتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب آسمان پر ماہ تمام جلوہ افروز ہو تو کیا اس کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب آسمان پر مہر تاباں جلوہ افروز ہو تو کیا اس کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا بالکل نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کو بھی اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائے گا اور فرمائے گا جو شخص دنیا میں جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ آج بھی اسی کی پیروی کرے، لہٰذا جو شخص دنیا میں سورج کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے گا جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ اُن کے ساتھ ہو جائے گا۔ اخیر میں یہ امت رہ جائے گی جس میں مومن اور منافق دونوں شامل ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کے سامنے کسی ایسی صورت میں جلوہ گر ہو گا جو ان کے لیے اجنبی ہو گی اور فرمائے گا میں تمہارا رب ہوں، میری امت کہے گی ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ہم اس جگہ ٹھہریں گے یہاں تک کہ ہمارا رب جلوہ گر ہو اور ہم اس کو پہچان لیں، پھر اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں جلوہ گر ہو گا جو ان کے لیے جانی پہچانی ہو گی اور فرمائے گا میں تمہارا رب ہوں، پھر میری امت عرض کرے گی ہاں تو واقعی ہمارا رب ہے، پھر وہ اپنے رب کے جلوہ کی اتباع کریں گے، پھر دوزخ کی پشت پر پل صراط بچھایا جائے گا اور میں اور میرے امتی سب سے پہلے اس پل سے گزریں گے اور اس دن رسولوں کے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہو گا اور اس دن رسولوں کی زبان پر یہی دعا ہو گی اَللّٰهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ (اے مولیٰ سلامتی سے پار گزار دے) اور جہنم میں سعدان نامی خار دار جھاڑی کی مثل کانٹے ہوں گے، پھر آپ نے پوچھا: کیا تم نے سعدان جھاڑی کو دیکھا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا جی! یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ کانٹے سعدان جھاڑی کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے لیکن اس کے دندانوں کی لمبائی کی مقدار کو بغیر اللہ تعالیٰ کے (بتلائے) کوئی نہیں جانتا اور وہ کانٹے لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں گھسیٹ لیں گے اور بعض مومن اپنے نیک اعمال کے سبب ان سے محفوظ رہیں گے اور بعض مومن پل صراط سے گزر کر جہنم سے نجات پا جائیں گے (یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا فیصلہ کر کے فارغ ہو جائے گا، پھر وہ ارادہ کرے گا کہ جن لوگوں نے شرک نہیں کیا ہے ان میں سے وہ جن کو چاہے محض اپنی رحمت سے جہنم سے نکال لے اس وقت فرشتوں کو حکم دے گا جو لوگ کلمہ طیبہ (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) پر تاحیات قائم رہے ان کو جہنم سے نکال لیں، فرشتے ان لوگوں کو سجدوں کے نشانات کی وجہ سے پہچان لیں گے کیونکہ آگ ابن آدم کے اعضاء سجود کے علاوہ تمام جسم کو جلا دے گی، یہ لوگ جلے ہوئے جسم کے ساتھ جہنم سے نکالے جائیں گے، پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح تروتازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ اگ پڑتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا تو ایک شخص ابھی باقی ہو گا تو وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا اے میرے رب میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے اس کی بدبو مجھے ایذاء پہنچاتی ہے اور اس کی تپش مجھے جلا رہی ہے، پھر جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو گا وہ دعا کرتا رہے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمائے گا: اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو پھر تو اور سوال کرنے لگے گا، وہ شخص کہے گا کہ میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے وعدہ کی پختگی پر اپنی مرضی کے مطابق عہد و پیمان لے گا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ جہنم کی طرف سے پھیر کر جنت کی طرف کر دے گا۔ جب وہ شخص جنت کو اپنے سامنے دیکھے گا تو اللہ کی مشیت کے مطابق کچھ دیر تو چپ رہے گا پھر کہے گا اے میرے رب مجھے جنت کے دروازے تک لے جا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے مجھ سے پختہ عہد و پیمان نہیں کیے تھے کہ تو مزید سوال نہیں کرے گا، افسوس ہے اے ابن آدم! تو کس قدر عہد شکن ہے، وہ شخص عرض کرے گا اے میرے رب! اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اگر میں نے تیرا یہ سوال بھی پورا کر دیا تو پھر تو اور کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ شخص کہے گا اے میرے رب تیری عزت و جلال کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ اس شخص سے اس نئے وعدہ کی پختگی پر اپنی مرضی کے مطابق عہد و پیمان لے گا اور اس کو جنت کے دروازے پر کھڑا کر دے گا، جب وہ شخص جنت کے دروازہ پر کھڑا ہو گا تو جنت اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کو نظر آئے گی اور وہ اس میں سرور انگیز اور خوشگوار مناظر دیکھے گا، پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ دیر تو وہ چپ رہے گا اس کے بعد کہے گا: اے میرے رب مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تو نے ابھی پختہ عہد نہیں کیے تھے کہ تو اس کے بعد سوال نہیں کرے گا، افسوس اے ابن آدم تو کس قدر عہد شکن ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا:
أَيْ رَبِّ! لَا أَکُونُ أَشْقَی خَلْقِکَ فَلَا یَزَالُ یَدْعُو اﷲَ حَتَّی یَضْحَکَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی مِنْهُ۔ فَإِذَا ضَحِکَ اﷲُ مِنْهُ، قَالَ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ.
اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب ہوں گا (کہ جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوں اور پھر جنت کے اندر نہ جا سکوں) وہ یونہی بار بار دعا کرتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی شان کے مطابق ہنسی آئے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا تو فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔
اور جب اس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا تو پھر فرمائے گا اب اور تمنا کر، وہ شخص اللہ تعالیٰ سے کچھ سوال اور تمنائیں کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ خود اس کو جنت کی نعمتوں کی طرف متوجہ کرے گا اور جنت کی نعمتوں کی اجناس اسے یاد دلائے گا تاکہ اس کی آرزوئیں پوری ہو جائیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب نعمتیں بھی لے لو اور اتنی ہی مقدار میں اور نعمتیں بھی لے لو۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے مطابق بیان کیا۔ صرف اس بات سے اختلاف کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ کہا یہ تمام نعمتیں بھی لے لو اور ان کے برابر اور نعمتیں بھی لے لو تو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابو ہریرہ! یہ تمام نعمتیں بھی لو اور اس کی مثل دس نعمتیں اور لے لو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو یہ حدیث یونہی یاد ہے کہ یہ نعمتیں اور ان کی ایک مثل لے لو۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد اسی طرح یاد ہے کہ یہ نعمتیں بھی لو اور ان کی مثل دس نعمتیں اور لے لو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس شخص کی بات کر رہا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا۔
سبحان اﷲ، رب العالمین اپنے بندوں پر کتنا مہربان اور شفیق ہے۔ ایک روایت میں تین طرح کے آدمیوں پر ہنسی کا ذکر ہے۔ جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
عَنْ أَبِي سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : ثَلَاثَةٌ یَضْحَکُ اﷲُ إِلَیْهِمْ الرَّجُلُ یَقُومُ مِنْ اللَّیْلِ وَالْقَوْمُ إِذَا صَفُّوا لِلْقِتَالِ.
حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: تین آدمیوں کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ کو ہنسی آتی ہے۔ ایک وہ آدمی جو رات کو کھڑا ہو کر نماز پڑھے، دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لئے صف بندی کریں اور تیسرے وہ لوگ جو جہاد کے لئے صف بندی کریں۔
ایک جیسی سواریوں پر بیٹھ کر لڑنے والوں میں سے ایک آدمی دشمن کے ساتھ لڑتے لڑتے شہید ہو جاتا ہے اور اُس کے دوسرے ساتھی شکست کھا جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کو دونوں طرح کے افراد پر ہنسی آتی ہے۔ اور اسی طرح رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے پر بھی ہنستا ہے:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: رَجُلَانِ یَضْحَکُ اﷲُ إِلَیْهِمَا: رَجُلٌ تَحْتَهُ فَرَسٌ مِنْ أَمْثَلِ خَیْلِ أَصْحَابِهِ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَانْهَزَمُوا، وَثَبَتْ إِلَی أَنْ قُتِلَ شَهِیدًا، فَذَلِکَ یَضْحَکُ اﷲُ مِنْهُ، فَیَقُولُ: انْظُرُوا إِلَی عَبْدِي لَا یَرَاهُ أَحَدٌ غَیْرِي.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو آدمی ایسے ہیں جن کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ ہنستا ہے۔ ایک وہ آدمی جس کے نیچے اپنے دوستوں کے گھوڑوں کی مثل گھوڑا ہواور ان سے دشمن ملے تو وہ شکست کھا جائیں لیکن وہ آدمی ڈٹا رہے، اگر اس کو قتل کر دیا گیا تو وہ شہید ہو گا، اور اس پر اﷲ تعالیٰ کو ہنسی آتی ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کی طرف دیکھو جس کو میرے سوا دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔
اور امام طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
وَرَجُلٌ قَامَ مِنَ اللَّیْلِ لَایَعْلَمُ بِهِ أَحَدٌ فَأَسْبَعَ الْوَضُوءَ، وَصَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآلہ وسلم ، وَحَمِدَ اﷲَ، واسْتَفْتَحَ الْقِرَاءةَ فَیَضْحَکُ اﷲُ إِلَیْهِ.
دوسرا وہ آدمی جو رات کو اُٹھے، جس کے اُٹھنے کا کسی کو پتہ نہ ہو، پھر وہ اچھے طریقے سے وضو کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے، اﷲ تعالیٰ کی حمد کرے اور قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دے تو اس کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ ہنستا ہے۔
جو شخص اﷲ تعالیٰ سے دور ہو کر غیروں کے قریب ہونا چاہتا ہے، اﷲ تعالیٰ کو اس کی خواہش پر بھی ہنسی آتی ہے جیسا کہ حضرت ابو رزین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ضَحِکَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غِیَرِهِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اﷲِ أَوَ یَضْحَکُ الرَّبُّ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ لَنْ نَعْدَمَ مِنْ رَبٍّ یَضْحَکُ خَیْرًا.
خدا تعالیٰ ان بندوں پر ہنستا ہے جو اس سے تو مستغنی اور غیر اللہ کے قرب کے خواہش مند ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا خدا بھی ہنستا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کیا ہم نیکی کو کبھی نہ ترک کریں گے تاکہ وہ نیکی پر ہنستا رہے۔
ابن ماجه، السنن، 1: 64، رقم: 181، بیروت: دار الفکر
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔