جواب:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا.
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔
النساء، 4: 93
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے علماء و آئمہ کرام نے فرمایا ہے کہ اسلام لانے کے بعد بدترین گناہ کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے، اگر کوئی شخص اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے ہر حال میں سزا ملے گی۔ اس کے علاوہ باقی تمام گناہ توبہ سے معاف ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس موضوع کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا گناہ کبیرہ توبہ کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں؟ اور گناہوں سے پاک ہونے کے لیے کیا عمل کیا جائے؟
بلاشبہ توبہ ہرشخص کے لیے، ہر حال میں، ہر وقت واجب ہے لیکن فضیلت کے اعتبار سے جوانی کی توبہ افضل ترین ہے کیونکہ بڑھاپے میں تو آرزوؤں، تمناؤں اور چاہتوں کا زمانہ بیت چکا ہوتا ہے‘ قویٰ مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں اور نفسانی و شہوانی خواہشات دم توڑ چکی ہوتی ہیں۔ جوانی میں یہ تمام تر طاقتیں عروج پر ہوتی ہیں اس لیے انسان گناہ کی طرف جلد راغب ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوانی کے ایام میں توبہ کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَن أَنَس قَال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ شَابٍّ تَائِبٍ.
اللہ تعالیٰ کو جوان توبہ کرنے والے سے زیادہ کوئی شے محبوب نہیں ہے۔
ابن عدی، الکامل فی ضعفاء الرجال، 4: 118، بيروت، دارالفکر
لہٰذا ہمیں جب بھی موقع ملے توبہ کر لینی چاہیے‘ یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ کب جوانی ختم ہوگی۔ جس عمر میں گناہ کرنے کی طاقت عروج پر ہے اس وقت خود کو گناہ سے بچانا، گناہ ترک کرنا اور خدا کے حضور توبہ کرنا سب سے بہتر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔