جواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب محض ’نامہ بر‘ کا نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شارح و شارعِ دین، معلم ومربیّ، راہنما و پیشوا، حاکم و فرماں روا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیے ہوئے احکام پر عمل مسلمانوں پر فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال و افعال اور احکام و ارشادات کو وحی الٰہی پر مبنی قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO اإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
النَّجْم، 53: 3-4
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و اعمال کی بنیاد قرآنِ مجید یا اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی ہوتی ہے۔ اسی بناء پر امتِ مسلمہ نے صدرِ اسلام سے لیکر آج تک سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلامی قانون کا دوسرا بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس سے ثابت شدہ احکام کو مسلمانوں کے لیے حجت اور واجب التعمیل مانا ہے۔ شیخ عبدالوہاب خلّاف فرماتے ہیں:
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے جن اقوال، افعال اور تقریرات کا صدور ہوا ہے اور ان کا مقصود قانون سازی اور اقتدا ہے اور وہ ہم تک صحیح سندوں سے‘ جن سے قطعیت یا ظنِ غالب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، پہنچے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے حجت اور قانون سازی کا سرچشمہ ہیں۔ جن سے اجتہاد کرنے والوں کو شرعی احکام کا استنباط کرنا ہے۔ گویا احادیث میں وارد ہونے والے احکام سے قرآن میں مذکوراحکام کے ساتھ ایک ایسا قانون تشکیل پاتا ہے جس کی اتباع مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ توضیح و تشریح کرنے والی احادیث مسلمانوں کے لیے حجت نہ ہوتیں اور ان کی حیثیت واجب الاتباع قانون کی نہ ہوتی، تو قرآن کے فرائض کا نفاذ اور اس کے احکام پر عمل ممکن نہ ہوتا۔ ان توضیحی احادیث کی اتباع اسی پہلو سے واجب ہے کہ ان کا صدور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا ہے، اور وہ ایسی سندوں سے مروی ہیں جو قطعیت یا ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہرحدیث جس میں کوئی حکم یا قانون مذکور ہوا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس کی نسبت صحیح ہو وہ حجت اور واجب الاتباع ہے، خواہ اس کے ذریعے قرآن میں مذکور کسی حکم کی تشریح و تبیین ہو رہی ہو یا اس میں کوئی ایسا حکم بیان کیاگیا ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو۔ اس لیے کہ ان تمام احادیث کا سرچشمہ وہ معصوم ذات گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تبیین کے ساتھ قانون سازی کی ذمہ داری دی تھی۔
علم اصول الفقه، عبدالوهاب خلّاف، ص 83
پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعتِ اسلامیہ کے شارح بھی ہیں اور شارع بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر دو ہیں: ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ شارع حقیقی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ وہی حاکم ہے اور تمام شرعی احکام اسی کے دیے ہوئے ہیں، خواہ اس نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب قرآن میں کردیا ہو یا اس کی ہدایت کے مطابق اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بیان کیا ہو۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سے شرعی احکام حاصل ہوتے ہیں تو دونوں کو شارع کہا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘
الْأَعْرَاف، 7: 157
اس آیت میں تحلیل وتحریم کی نسبت صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کی گئی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلال و حرام کا اختیار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامِ تحلیل و تحریم واجب الاتباع ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔