جواب:
اگر یہ جملہ غیرارادی طور پر زید کی منہ سے نکلا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسا کوئی لفظ نہیں بولنا چاہیے۔
اس کے برعکس اگر زید نے بقائم ہوش و حواس، جان بوجھ کر مذاق اڑانے کے لیے یہ جملہ بولا ہے تو اسے تجدید ایمان کرنا چاہیے اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو نیا نکاح بھی کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس جرم پر معافی مانگے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔