کیا نماز تراویح اصل میں تہجد ہی ہے؟


سوال نمبر:4278

السلام علیکم معزز مفتی صاحب! مجھے نمازِ ترایح کے متعلق چند سوالات کرنے ہیں۔ آپ کے فتویٰ کے مطابق نمازِ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنتِ مؤکدہ جس کو سنتِ ہدیٰ بھی کہتے ہیں اس کی جو بھی تعریف کی جائے نمازِ تراویح اس پر پورا نہیں اترتی۔ مثال کے طور پر تراویح کی سب سے مشہور حدیث جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا ہے صحیح بخاری میں یوں درج ہے کہ:

ان عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا اخبرتہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیلۃ من جوف اللیل فصلی فی المسجد، و صلی رجال بصلاتہ فاصبح الناس فتحدثوا؛ فاجتمع اکثر منھم فصلی فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ ، فخرج رسول اللّٰہ فصلی بصلاتہ. فلما کانت اللیلۃ الرابعۃ عجز المسجد عن اھلہ حتی خرج لصلاۃ الصبح ، فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشہد، ثم قال : اما بعد ، فانہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنھا. (بخاری، رقم: 2512)

''ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زبیرکو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت نکلے اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھی ۔ وہاں کچھ لوگ آپ کے ساتھ اس میں شریک ہو گئے ۔ انھوں نے صبح اس کا ذکر کیا تو دوسرے دن زیادہ لوگ جمع ہو گئے ۔ اس رات بھی آپ نے مسجد میں نماز پڑھی تو لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی ۔ صبح پھر اس کا ذکر ہوا تو تیسری رات نمازیوں کی ایک بڑی تعداد مسجد میں آ گئی ۔ آپ اس رات پھر نکلے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ پھر چوتھی رات ہوئی تو مسجد لوگوں سے اس طرح بھر گئی کہ اس میں کسی آنے والے کے لیے جگہ باقی نہ رہی ۔ لیکن اس رات آپ صبح سے پہلے نہیں نکلے ، بلکہ فجر ہی کے وقت باہر آئے ۔ پھر فجر کی نماز کے بعد آپ نے کلمات شہادت پڑھے اور فرمایا : میں تم لوگوں کے آنے سے بے خبر نہ تھا ، لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ کہیں تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اسے ادا نہ کر سکو۔''

گویا مروجہ تراویح کی نماز بمع عدد رکعات پیغمراکرم ﷺ کے مبارک زمانہ میں رائج نہ تھی اور نہ ہی پہلے خلیفہ اول میں یہ تراویح بطور نماز کے مروج تھی۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لوگوں نے رمضان کے مہینے میں بالالتزام جماعت کے ساتھ تراویح کو پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں نمازِ تراویح کا شرعی حکم سنت مؤکدہ قرار دینا کیسا ہے؟

(2)ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ نمازِ تراویح دراصل الگ سے کوئی نماز نہیں بلکہ تہجد کی ہی نماز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی ۔ اس باب میں اصل کی حیثیت جس روایت کو حاصل ہے ، وہ یہ ہے:

عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ اخبرہ انہ سأل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا: کیف کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت : ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ: یصلی اربعاً ، فلا تسئل عن حسنھن و طولہن، ثم یصلی اربعاً ، فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ، ثم یصلی ثلاثاً. (بخاری ، رقم: 1147)

''ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا ہوتی تھی؟ام المومنین نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ رمضان میں کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھتے تھے اور نہ رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں ۔ آپ چار رکعت اس طرح پڑھتے کہ بس کچھ نہ پوچھو کہ ان کا حسن کیا تھا اور وہ کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ پھر چار رکعت پڑھتے ۔ ان کے بارے میں بھی کچھ نہ پوچھو کہ ان کا حسن کیا تھا اور وہ کتنی لمبی ہوتی تھیں ۔ پھر آخر میں تین رکعت پڑھتے تھے۔

ایسے میں 20 رکعت کو ثابت کرنے پر سارا زور صرف کرنے کا کیا حکم ہے؟

(3)جب یہ نماز تہجد ہے تو اس کا اصل وقت جیسا کہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ مزمل سے واضح ہے ، سو کر اٹھنے کے بعد ہی کا ہے اور اسی وجہ سے اسے نماز تہجد کہا جاتا ہے ۔ لیکن کوئی شخص اگر یہ سعادت حاصل کرنے میں کسی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے تو وہ یہ نماز سونے سے پہلے بھی پڑھ سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

ایکم خاف ان لایقوم من اٰخر اللیل فلیؤتر ثم لیرقد و من وثق بقیام من اللیل فلیؤتر من اٰخرہ فان قرأۃ اٰخر اللیل محضورۃ و ذلک افضل. (مسلم، رقم ۱۶۳)

تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہ اٹھ سکے گا ،اسے چاہیے کہ وہ سونے سے پہلے اپنی نماز وتر کر لے ، لیکن جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ یقیناًاٹھے گا ، اسے یہ نماز رات کے آخری حصے ہی میں پڑھنی چاہیے ، اس لیے کہ آخر شب کی قرات بڑی حضوری کی چیز ہے اور وہی افضل ہے۔''

ایسے میں نمازِ عشاء کے ساتھ ادائیگی کو شرعی حکم قرار دینا کہاں سے ثابت ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی۔ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اس کی اس سے زیادہ رکعتیں بھی ثابت ہیں اور ان کا یہ عمل دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت یقیناً ان کے علم میں تھی۔ عام مسلمان جنھیں قرآن مجید زیادہ یاد نہیں تھا ، رمضان کے مہینے میں زیادہ دیر تک قیام اللیل کی سعادت حاصل کرنے کے لیے غالباً اس اجازت کے طالب ہوئے کہ وہ رکعتوں کی تعداد بڑھالیں اور آپ نے یہ اجازت دے دی۔ بعد میں جب ایک امام کا تقرر ہوا تو لوگ بالعموم تئیس (بمع وتر) رکعتیں پڑھنے لگے۔

مفتی صاحب! کیا یہ درست نہیں کہ نمازِ ترایح کی تعداد شرعاً مقرر نہیں ہے، صحابہ کرام نے اپنے تقویٰ، شوق اور قیام اللیل کی رغبت میں رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اس کی تعداد میں اضافہ کیا۔ اسے لازماً عشا کے ساتھ پڑھنے اور اس کی جماعت اور رکعتوں پر اصرار جیسی چیزوں کے لیے دین میں کوئی بنیاد نہیں ہے؟ کیا اکابر علما و صلحا کے لیے مناسب نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل کی پیروی میں کے لیے تہجد ہی کے وقت کو ترجیح دیں؟ کیا ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اس نماز کے پڑھنے والوں پر یہ حقیقت بھی واضح نہیں کرنی چاہیے کہ یہ کوئی الگ نماز نہیں، بلکہ وہی تہجد کی نماز ہے جس کی اصل برکتیں سو کر اٹھنے کے بعد اور تنہا اپنے گھر میں اسے پڑھنے ہی سے حاصل ہوتی ہیں؟

بینوا و تواجروا

  • سائل: طاہر بن یامینمقام: ملتان
  • تاریخ اشاعت: 25 مئی 2018ء

زمرہ: نماز تراویح

جواب:

آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل ہیں:

1۔ تراویح کا شرعی حکم:

نمازِ تراویح سنتِ عین ہے، جس کی دلیل سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی یہ حدیثِ مبارکہ ہے:

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صَلّٰی ذَاتَ لَیْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلّٰی بِصَلَاتِهٖ نَاسٌ، ثُمَّ صَلّٰی مِنَ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُولُ ﷲِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَیْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ یَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَیْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِیتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ، وَذَلِکَ فِي رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

  1. بخاری، الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 1: 380، الرقم: 1077
  2. مسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان وهو التراویح، 1: 524، الرقم/761 (177)
  3. أبو داؤد في السنن، کتاب: الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2: 49، الرقم: 1373

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ اور زیادہ ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: تمہارا عمل میں نے دیکھا لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اسی واقعہ کی روایت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ لَیْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَصَلّٰی فِي الْمَسْجِدِ، وَصَلّٰی رِجَالٌ بِصَلَاتِهٖ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلّٰی فَصَلَّوْا مَعَهٗ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَکَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَصَلَّی فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهٖ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهٖ حَتَّی خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهٗ لَمْ یَخْفَ عَلَيَّ مَکَانُکُمْ، وَلَکِنِّي خَشِیتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا، فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْأَمْرُ عَلٰی ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

  1. بخاري، الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2: 708، الرقم: 1908، وأیضاً في کتاب الجمعة، باب: من قال فی الخطبة بعد الثناء أما بعد، 1: 313، الرقم: 882،
  2. مسلم فی الصحیح، کتاب: صلاة المسافرین وقصرها، باب: الترغیب فی قیام رمضان وهو التراویح، 1: 524، الرقم: 761،
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 169، الرقم: 25401

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصف شب کے وقت باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا چرچا کیا تو دوسرے روز اور زیادہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے مزید چرچا کیا۔ چنانچہ مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات اور بڑھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تو (کثیر تعداد میں) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نمازِ فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادتِ توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح فرض ہو جانے اور تمہارے اس (فرض کی ادائیگی) سے عاجز آ جانے سے ڈر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک اپنی معمول کی عبادت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ صحابہ کرام کو اس کی جماعت بھی کروائی۔ مگر اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ یہ عبادت فرض نہ ہوجائے‘ تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین نے انفرادی و اجتماعی طور پر قیام اللیل کا یہ معمول جاری رکھا، یہاں تک کہ سدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کی باجماعت ادائیگی مروج ہوئی اور اس کا نام تراویح پڑ گیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں کہ:

خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه لَیْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ، یُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهٖ، وَ یُصَلِّي الرَّجُلُ فَیُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه: إِنِّي أَرٰی لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلٰی قَارِیئٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهٗ لَیْلَةً أُخْرٰی وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَـلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ  رضی الله عنه: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هٰذِهٖ، وَالَّتِي یَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي یَقُوْمُوْنَ، یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ، وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهٗ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ.

  1. بخاري، الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2: 707، الرقم: 1906
  2. مالک في الموطأ، کتاب الصّلاة فی رمضان، باب الترغیب في الصلاة في رمضان، 1: 114، الرقم: 650

میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق (شکل میں مصروفِ عبادت) تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں ایک گروہ کسی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں اگر ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا عزم کرلیا اور پھر حضرت ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی امامت میں سب کو جمع کر دیا۔ پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! مگر جو لوگ اس وقت (نمازِ تراویح ادا کرنے کے بجائے) سو رہے ہیں (تاکہ وہ پچھلی رات اٹھ کر نمازِ تراویح ادا کریں) وہ اس وقت نماز ادا کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے تھے اور (تراویح ادا کرنے والے) لوگ رات کے پہلے پہر نماز ادا کرتے تھے۔

اس حدیث کو امام بخاری، مالک، ابن خزیمہ، عبدالرزاق، اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا باجماعت نمازِ تراویح کو مروج کرنا اس کے شرعی جواز کی دلیل ہے، اسی بنیاد پر ہم اسے سنتِ عین قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ آئمہ و علماء کا ایک طبقہ نمازِ تراویح کو سنتِ مؤکدہ قرار دیتا ہے، تاہم ہمارے نزدیک یہ سنتِ عین ہے۔ فقہ حنفی کے محقق علی الاطلاق امام محمد امين بن عمر عابدين المعروف بہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

صلاة التراویح؛ انها سنة عین و صلاتها بجماعة فی کل محلة سنة کفایة.

شامی، رد المحتار علی در المختار شرح تنویر الابصار، 1: 205

نمازِ تراویح کی ادائیگی ہر مکلف پر سنتِ عین ہے اور ہر رہائشی علاقے میں اس کی جماعت سنتِ کفایہ ہے۔

2۔ بیس رکعات تراویح کی مشروعیت:

حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی کیاکیفیت ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا:

مَا کَانَ یَزِیدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَیْرِهٖ عَلَی إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً. یُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَـلَاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اﷲِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فقَالَ: یَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِي. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

  1. بخاری، الصحیح،کتاب التهجد، باب قیام النبی باللیل في رمضان وغیره، 1: 385، الرقم: 1096
  2. مسلم، الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب صلاة اللیل و عدد رکعات النبی فی اللیل، 1: 509، الرقم: 738 (125)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں (بشمول وتر) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو اُن کے حسن ادائیگی اور طوالت کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے حسن ادائیگی اور طوالت کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے (ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کی بنیاد پرکچھ لوگ مغالطے میں نمازِ تراویح آٹھ (8) رکعات قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک علمی خطا ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔

امام بخاری کا اس حدیث کو ’’کتاب صلاۃ التراویح‘‘ میں لانا ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ رکعاتِ تراویح کے عدد پر حدیث لا رہے ہیں۔امام بخاری کا اسلوب ہے کہ وہ ’’الصحیح‘‘ میں ایک ہی حدیث مختلف ابواب کے تحت تکرار کے ساتھ بھی لاتے ہیں۔ جب وہ ایک ہی حدیث تکرار کے ساتھ مختلف ابواب میں لاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک کئی فقہی احکام پر دلالت کر رہی ہوتی ہے لہٰذا وہ متعلقہ فقہی حکم کو اخذ کرنے کے لیے اس حدیث کو مختلف ابواب کے تحت درج کردیتے ہیں۔اس تکرار کی وجہ کبھی لفظی اشتراک بھی ہوتا ہے اور کبھی معنوی اور حکمی دلالت بھی۔

زیر نظر حدیث کو جو لوگ صحیح بخاری کا حوالہ دے کر رکعاتِ تراویح پر محمول کرتے ہیں ان کی غلطی کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے شایدحدیث کے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ امام بخاری نے یہ حدیث صرف ’’کتاب صلاۃ التراویح باب فضلِ من قام رمضان‘‘ میں ہی روایت نہیں کی بلکہ یہاں یہ حدیث دوسری مرتبہ آئی ہے۔ اس سے پہلے وہ اس حدیث کواصلاً ’’کتاب التہجد‘‘ میں وارد کر چکے ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ امام بخاری اس (صلاۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی رمضان وغیر رمضان) سے مراد ’’صلاۃ التہجد‘‘لے رہے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے اسے ’’کتاب التہجد‘‘ کے تحت درج کیا ہے۔ پھر دوبارہ ’’کتاب صلاۃ التراویح‘‘ کے تحت جمع کرنے کا سبب بھی یہی ہے کہ حدیث میں ’’قیام اللیل‘‘ کے حکم کا اشتراک ہے۔ یعنی نمازِ تہجد، ماهِ رمضان میں بھی اور اس کے علاوہ بقیہ تمام مہینوں میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے اس حدیث کو دونوں جگہوں پر درج کر دیا۔لئے اس حدیث کو دونوں جگہوں پر درج کر دیا۔

امام بخاری ’’ترجمۃ الباب‘‘ کا عنوان اپنے مذہب، اپنی ترجیح اور فقہی فہم و اجتہاد کے مطابق قائم کرتے ہیں، یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس باب کے ذیل میں درج کی ہوئی احادیث سے یہ حکم ثابت ہوتا ہے۔ یہ دراصل اُن کے فقہی مذہب کی نشاندہی کرتا ہے۔باب کا تعلق کتاب سے ہوتا ہے اور ہر باب کے تحت مندرجہ احادیث کا تعلق ترجمۃ الباب سے ہوتا ہے۔

اس مقام پر انہوں نے ’’کتاب صلاۃ التراویح‘‘ نام سے کتاب تو قائم کی ہے، لیکن اس عنوان سے باب نہیں بنایا۔ اس کتاب کے نیچے انہوں نے ایک ہی باب ’’ فضل من قام رمضان‘‘ قائم کیاہے اور اس کے اندر کل چھ احادیث درج کی ہیں۔ امام بخاری نے ’’عدد رکعات التراویح‘‘ کا کوئی باب قائم نہیں کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کو علی التحقیق کوئی صحیح حدیث تراویح کی رکعات کے قطعی عدد پر نہیں ملی۔ اگر امام بخاری یہ سمجھتے کہ اس حدیث کی دلالت نمازِ تراویح کی رکعات پر ہے تو امام بخاری قطعی طور پر اس کو فضیلتِ قیام رمضان کے تحت درج نہ کرتے بلکہ ’’عدد رکعات تراویح‘‘ کا الگ باب قائم کرکے خواہ ایک ہی حدیث تھی وہاں درج کردیتے۔ مگر یہاں پر امام بخاری نے اس حدیث کے لیے رکعاتِ تراویح کے عدد پر الگ باب قائم ہی نہیں کیاجس سے ان کا مذہب ان لوگوں کے برعکس ثابت ہوتا ہے جو اس حدیث سے آٹھ (8) رکعات تراویح کا معنی اخذ کرتے ہیں۔معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اﷲ کے نزدیک اس حدیث کی دلالت رکعاتِ تراویح کے عدد پر نہیں ہے بلکہ رمضان المبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز تہجدکے معمول پر ہے۔

اس حدیث سے مقصود بیانِ رکعات نہیں بلکہ ان کازیادہ نہ ہوناہے۔ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا سال تہجد کی نماز بشمول وترگیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا رمضان کے علاوہ باقی گیارہ ماہ ہوتے۔ان گیارہ رکعتوں میں 8 رکعتیں امام بخاری مذکورہ حدیث کو باب ’’فضل من قام رمضان‘‘ میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا سال پابندی سے نمازِ تہجد پڑھتے تھے۔ جب رمضان المبارک کاآغاز ہوتا تو اس میں صلاۃ التراویح شروع ہو جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں نماز تراویح بھی پڑھتے اور اپنے تہجد کے معمول کو بھی جاری رکھتے۔ اس خیال سے کہ نمازِ تروایح کی طویل نماز 20 رکعات پڑھنے کے بعد کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تہجد کے معمول میں کوئی تبدیلی تو نہیں فرماتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا، جس کا جواب مذکورہ حدیث میں دیا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں نمازِ تراویح شروع ہو جانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تہجد ترک نہیں کرتے تھے، اس کی فضیلت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کو بھی نمازِ تراویح کے ساتھ جاری رکھتے تھے۔ حضرت جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

صُمْنَا مَعَ رَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَلَمْ یُصَلِّ بِنَا، حَتّٰی بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتّٰی ذَهَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ، فَقُلْنَا لَهٗ: یَا رَسُولَ ﷲِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِیَّةَ لَیْلَتِنَا هَذِهٖ؟ فَقَالَ: إِنَّهٗ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَهٗ قِیَامُ لَیْلَةٍ، ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ بِنَا حَتَّی بَقِيَ ثَـلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلّٰی بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهٗ وَنِسَائَهٗ، فَقَامَ بِنَا حَتَّی تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ، قُلْتُ لَهٗ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ.

رَوَاهُ أَبُو دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَة وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَی بَعْضُهُمْ أَنْ یُصَلِّيَ إِحْدٰی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِینَةِ وَالْعَمَلُ عَلٰی هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِینَةِ. وَأَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَیْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم عِشْرِینَ رَکْعَةً. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهٰکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّةَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَةً. وقَالَ أَحْمَدُ: رُوِيَ فِي هٰذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ یُقْضَ فِیهِ بِشَیْئٍ. وقَالَ إِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدٰی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَةً عَلٰی مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ. وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ یُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهٗ إِذَا کَانَ قَارِئًا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ وَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضوان الله علیهم اجمعین.

  1. أبو داود، السنن، کتاب: الصلاة، باب: في قیام شهر رمضان، 2: 50، الرقم: 1375
  2. الترمذي فی السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 3: 169-170، الرقم: 806
  3. النسائي، السنن، کتاب: السهو، باب ثواب من صلی مع الإمام حتی ینصرف، 3: 83، الرقم: 1364

 ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نمازِ (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ رات کا بقیہ حصہ بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لئے باعثِ سعادت ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سحری۔

اس حدیث کو امام ابو داؤد،ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیاہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ علماء کا قیامِ رمضان (تراویح) میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک وتروں کے ساتھ 41 رکعات ہیں۔ یہ قول اہلِ مدینہ کا ہے اور اسی پر مدینہ طیبہ والوں کا عمل ہے (کیونکہ وہ نمازِ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد یعنی ہر ترویحہ کے وقفہ میں چار رکعت نوافل اضافۃً ادا کرتے ہیں، جس سے کل 36 رکعات بن جاتی ہیں یعنی 20 رکعت تراویح اور 16 رکعت مزید نوافل۔ پھر 3 وتر، اور 2 نفل بعد میں ادا کرنے سے 41 رکعات بنتی ہیں۔ اکثر اہلِ علم حضرت علی، حضرت عمر رضی اللہ عنہا اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی بیس رکعات تراویح کے موقف پر قائم ہیں۔ امام سفیان ثوری، عبد اﷲ بن مبارک اور امام شافعی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں: میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو اسی طرح بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایا ہے۔

اہل مکہ بھی 20 رکعات تراویح ہی پڑھتے ہیں، مگر وہ ہر ترویحہ میں 4 نوافل پڑھنے کی بجائے کعبۃ اللہ کا طواف کرلیتے ہیں اس طرح ان کی نماز 20 رکعت ہی رہتی ہے۔

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: اس بارے میں مختلف روایات ہیں، اور اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ امام اسحاق فرماتے ہیں: ہم اکتالیس رکعتیں پسند کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام ابنِ مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق نے جماعت کے ساتھ تراویح کو پسند فرمایا ہے لیکن امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر نمازی قاری ہو تو علیحدہ پڑھے۔ اس باب میں حضرت عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابنِ عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں۔

2۔ نمازِ تراویح اور تہجد میں فرق:

حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے مروی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی مذکورہ حدیث کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نمازِ تہجد ہی کا نام رمضان میں قیامِ رمضان اور صلاۃ التراویح رکھ دیا گیا ہے، یہ کوئی الگ نماز نہیں۔ مگر یہ خیال درحقیقت سنتِ مطہرہ اور عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف محض ایک قیاس آرائی ہے۔

اگر نمازِ تہجد ہی کا نام رمضان میں تراویح رکھ دیاگیا ہوتا اور یہ الگ نماز نہ ہوتی بلکہ ایک ہی نماز کے دو نام ہوتے تو پھر صلاۃ اللیل سے ہٹ کر قیامِ رمضان کی جو فضیلت بار بار الگ سے آئی ہے اس کا کیا مفہوم ہوگا؟ امام بخاری نے کتاب صلاۃ التراویح کے تحت قیامِ رمضان کی فضیلت پر الگ باب قائم کیا ہے اور اس میں صحیح احادیث درج کی ہیں۔ جبکہ ’’نماز تہجد‘‘ پر بھی الگ کتاب قائم کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز تہجد اور قیام رمضان دو الگ نمازیں ہیں، ایک ہی نماز کے دو نام نہیں۔

نمازِ تہجد کو رمضان میں نمازِ تراویح قرار دینے والوں کا خیال اس لیے بھی غلط ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کی جماعت صرف تین راتوں میں کرائی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ تہجد کی باقاعدہ جماعت کبھی نہیں کرائی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجدگھر میں پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے کیونکہ اسے گھر میں پڑھنے کی زیادہ فضیلت ہے۔ نمازِ تراویح کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود باہر تشریف لائے، تین راتیں یہ نماز پڑھائی۔ لیکن جب لوگوں کی تعداد بڑھتی دیکھی تو اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز ان پر فرض نہ ہوجائے حکمۃً چوتھے روز نمازِ تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں نمازِ تراویح کی دوبارہ اور باقاعدہ جماعت شروع کروائی جبکہ نمازِ تہجد کی جماعت تو کبھی کسی نے شروع ہی نہیں کرائی۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح الگ نماز ہے اور تہجد الگ نماز ہے۔

صحیح بخاری کی جس روایت میں بشمول وتر گیارہ رکعات کا عدد بیان ہوا ہے اس میں تصریح ہے کہ یہ وہ نماز ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں پورا سال پڑھی جاتی ہے اور پورا سال پڑھی جانے والی نماز، صرف نمازِ تہجد ہی ہے، نمازِ تراویح نہیں ہے۔

امام مسلم، امام بخاری کے سب سے بڑے معتمد شاگرد اور معاصر ہیں۔ آپ نے زیر نظر حدیث کو ’’کتاب الصیام‘‘ کے تحت سرے سے درج ہی نہیں کیا ۔ اس سے ان کا مذہب واضح ہوتا ہے کہ امام مسلم اس حدیث کا کوئی تعلق صلاۃ التراویح یاقیامِ ماہِ رمضان کے ساتھ نہیں سمجھتے تھے۔ امام مسلم اگر اس حدیث کا اطلاق نمازِ تراویح پر کرتے یا اس سے مراد قیامِ رمضان لیتے، تو لامحالہ اسے کتاب الصیام یا قیامِ رمضان کے تحت درج کرتے۔ان کا اس حدیث کو ’’کتاب الصیام‘‘ کے تحت سرے سے درج ہی نہ کرنا، بلکہ اسے ’’باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی اللیل ‘‘ کے تحت درج کرنا، اس بات کا واضح اور قطعی ثبوت ہے کہ آپ اس سے مراد صرف نمازِ تہجد ہی لیتے تھے، نہ کہ صلاۃ التراویح۔

اب صحیحین (بخاری و مسلم) دونوں کو سامنے رکھ کر اگر نفسِ مسئلہ کو سمجھیں تو صورتِ حال واضح ہو جاتی ہے کہ امام مسلم صرف اس حدیث کو صلاۃ اللیل یعنی کتاب التہجد کے تحت لائے ہیں، اور کتاب الصیام یا باب رمضان میں اس کا ذکر ہی نہیں کیا اور امام بخاری بھی اس کو کتاب التہجد کے تحت لائے ہیں، مگر فضیلت قیامِ رمضان کے تحت بھی اس کا ذکر کر دیا تاہم انہوں نے مذکورہ کتاب کے تحت اس حدیث کے لیے عددِ رکعات کا باب قائم نہیں کیا۔ جب ان دونوں اکابر آئمہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی تخریج اور اسلوب کو ملا کر دیکھیں تو ’’کتاب التہجد‘‘ کے تحت یا صلاۃ اللیل کے تحت اس حدیث کو لانے پر دونوں متفق ہیں۔ دونوں نے اس حدیث کو ’’کتاب التہجد‘‘ یا صلاۃ اللیل میں درج کیا ہے۔ گویا دونوں نے اس حدیث کا اطلاق نمازِ تہجد پر یکساں طور پر کیا ہے۔ اب رہ گیا دوسرا امر کہ کیا اس حدیث کو کتاب الصیام یا قیامِ رمضان کے تحت بھی دونوں نے درج کیا ہے یا نہیں؟ تو امام مسلم کے حوالے سے جواب بالکل نفی میں ہے۔ انہوں نے اسے ماہِ رمضان سے جوڑا ہی نہیں۔ صرف امام بخاری نے وہاں بھی ذکر کیا ہے۔ گویا امام بخاری اسے قیامِ رمضان کے تحت درج کرنے میں منفرد ہو گئے، جبکہ امام بخاری اور امام مسلم دونوں اس حدیث کو ’’کتاب التہجد‘‘ یا صلاۃ اللیل کے تحت درج کرنے میں متفق ہوئے۔ دونوں کے ہاں اس کا قیامِ اللیل في شہر رمضان پر اطلاق متفق علیہ نہیں ہے۔ اُس میں صرف امام بخاری منفرد ہیں۔

اصولِ حدیث کے تحت جس معاملہ میں امام بخاری یا امام مسلم منفرد ہوں گے، اس کا درجہ ادنیٰ ہے۔ اور جس امر پر دونوں کا اتفاق ہو گا اُس کا درجہ اعلیٰ ہے۔ کیونکہ انفرادِ بخاری یا انفرادِ مسلم کے مقابلے میں اتفاقِ بخاری و مسلم کا درجہ اونچا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس اصول کے تحت بھی اس حدیث کا اطلاق نمازِ تراویح پر نہیں ہو گا بلکہ صرف نمازِ تہجد پر ہوگا۔ خواہ یہ نمازِ تہجد ماہِ رمضان میں آخر شب پڑھی جائے یا سال کے بقیہ گیارہ مہینوں میں رات کے کسی حصے میں پڑھی جائے۔ یہی اصولِ تخریج صحیح مسلم کے علاوہ سنن ابی داؤد، سنن ترمذی اور سنن نسائی میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بھی اس حدیث کو محض ’’صلاۃ اللیل‘‘ یعنی نمازِ تہجد کے تحت درج کیاہے، صلوٰۃ التراویح کے تحت نہیں۔

لہٰذا امام بخاری رحمہ اﷲ کا منشاء اور مراد ہم سے بہتر آئمہ صحاح خمسہ سمجھتے ہیں۔ جب تمام آئمہِ صحاح اس حدیث کا معنوی اطلاق فقط نماز تہجد پر کر رہے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اﷲ کا معنی و مراد بھی یہی ہو گا۔ اس باب میں صحیح بخاری کی اگلی احادیث بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔