جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد ہے:
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُO
جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
الرَّعْد، 13: 28
اس ارشادِ ربانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لیے اطمنان اور سکون کا ذریعہ ذکرِ الٰہی ہے۔ جو شخص ذکر و یادِ الٰہی سے غافل ہوجائے اس کا انجام بھی قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىO
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے۔
طهٰ، 20: 124
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىO وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىO
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔
الْأَعْلیٰ، 87: 14-15
درج بالا آیات سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ اطمنان و سکون اور فلاح و کامیابی اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہے۔ اہلِ ایمان اللہ و اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر، ان کی اطاعت اور ان کی یاد میں ہی قرار پاتے ہیں۔ ایمان کا مقصد بھی اپنے خالق سے تعلق اور اس کی بندگی اور اس کے مقرر کردہ اخلاقی معیار پر کاربند ہونا ہے۔ جیسے جیسے انسان کا تعلقِ الٰہی مستحکم اور اخلاقِ حسنہ پائیدار ہوتا چلا جاتا ہے اس کا روحانی مقام بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ اسلام ایسی کسی روحانیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس میں ایمان کا نور جلوہ گر نہ ہو۔ ایمان کی مضبوطی، اسوہ حسنہ کی پیروی اور تعلق باللہ کے بغیر روحانیت کا دعویٰ محض دھوکہ اور ڈفانگ ہے۔
روحانیت کا حصول فرائض و واجبات کی پابندی، مسنون و مستحب کی ادائیگی اور اطاعتِ خدا و رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راویت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا يقعد قوم يذكرون الله إلا حفتهم الملائكة وغشيتهم الرحمة ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده. رواه مسلم
جب بھی کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے بیٹھتی ہے تو ان کو وہ فرشتے گھیر لیتے ہیں (جو راستوں پر اہل ذکر کو ڈھونڈھتے پھرتے ہیں) ان کو رحمت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذکر کرنے والوں کا تذکرہ اپنے پاس والوں یعنی ملائکہ مقربین اور ارواح انبیاء میں کرتا ہے۔
مشکوه شريف، جلد دوم، ذکرالله اور تقرب الی الله کا بيان، حديث: 782
یہ سکینہ‘ دل کے سکون واطمینان اور خاطر جمعی کا نام ہے جس کے باعث دنیا کی لذتوں کی خواہش اور ماسوا اللہ کی لذت وطلب دل سے نکل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں استغراق واستحضار اور اس کی طرف توجہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روایت کردہ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
إن الله تعالى قال: من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به وبصره الذي يبصر به ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بها وإن سألني لأعطينه ولئن استعاذني لأعيذنه وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن يكره الموت وأنا أكره مساءته ولا بد له منه. رواه البخاري
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں۔ میرا کوئی بندہ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) ایسی کسی چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا جو میرے نزدیک ہو جیسے ادائیگی فریضہ کے ذریعہ میرا تقرب حاصل ہے، ہمیشہ نوافل کے ذریعے (یعنی ان طاعات وعبادات کے ذریعہ جو فرائض کے علاوہ اور فرائض سے زائد ہیں) میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ (کیونکہ وہ فرائض ونوافل دونوں کو اختیار کرتا ہے) اور جب میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ سنتا ہے میں اس کی بینائی بن جاتا ہوں وہ اسی کے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ پکڑتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور وہ برائیوں اور مکروہات سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور جس کام کو میں کرنے والا ہوں اس میں اس طرح تردد نہیں کرتا جس طرح کہ میں بندہ مومن کی جان قبض کرنے میں تردد کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ اس کی ناپسندیدگی کو میں ناپسند کرتا ہوں اور موت سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔
مشکوه شريف، جلد دوم، ذکرالله اور تقرب الی الله کا بيان، حديث: 787
اسلام کے تصورِ رحانیت کا اس سے واضح تصور کیا ہوسکتا ہے۔ علامہ خطابی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے میں کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندہ پر ان افعال واعمال کو آسان کر دیتا ہوں جن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور اس کو ان اعمال وافعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہوں یہاں تک کہ گویا وہ اعضاء ہی بن جاتا ہوں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کے حواس اور اس کے اعضاء کو اپنی رضا وخوشنودی کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ وہ بندہ اپنے کان سے صرف وہی بات سنتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے یا اسی طرح وہ اپنی آنکھ سے صرف انہیں چیزوں کو دیکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ۔ بعض حضرات اس کا مطلب یہ لکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس بندہ پر اپنی محبت غالب کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسی چیز کو دیکھتا ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور وہ اس چیز کو سنتا ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ اس کا مددگار وکارساز ہوتا ہے اور اس کے کان اس کی آنکھ اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤ کو ان چیزوں سے بچاتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتا۔ یہ اسلام کا تصور رحانیت ہے، اس سے زائد جو کچھ ہے محلِ نظر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔