جواب:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کی ہے جس میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے اٹھ کر باہر نکل جانے کے بارے میں فرماتی ہیں:
حَتَّی جَاءَ الْبَقِیعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے پھر تین بار اپنے ہاتھ اٹھائے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تین سو تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے:
فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اﷲِ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ یَدَیْهِ فَجَعَلَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِکْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا یَدَیْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْکِبَیْهِ.
نبی اکرم نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر باآواز بلند اپنے رب سے یہ دعا کی: اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما، اے اللہ! تو نے جس چیز کا مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما، اے اللہ! اہل اسلام کی یہ جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ہاتھ پھیلا کر باآواز بلند مسلسل دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کے شانوں سے چادر گر گئی۔
مسلم، الصحیح، 3: 1384، رقم: 1763
مذکورہ بالا روایات میں ہاتھ اٹھا کر اور قبلہ رو ہو کر دعا مانگنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے، مگر شارع علیہ السلام نے کوئی ایک طریقہ لازم نہیں کیا۔ دعا مانگنا ضروری ہے ہاتھ اٹھائے جائیں یا نہ اٹھائے جائیں‘ دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔