آبِ‌ زمزم کی حقیقت کیا ہے؟


سوال نمبر:4231
آبِ‌ زمزم کی کیا حقیقت ہے؟

  • سائل: ملک عثمان علیمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 31 مئی 2017ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل حدیثِ پاک نقل کی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آبِ زمزم کی حقیقت بیان کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عورتوں نے سب سے پہلے جن سے کمر بند ڈالنا سیکھا وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تھیں۔ انہوں نے حضرت سارہh سے اپنے نشانات چھپانے کی غرض سے کمر بند ڈالا تھا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لے آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں۔ ان دونوں کو بیت اللہ کے قریب مسجد کے اوپر والی جانب زمزم کی جگہ چھوڑ گئے۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں ایک بھی آدمی آباد نہ تھا اور ان کے نزدیک پانی بھی نہ تھا۔ ان دونوں کو ایسی جگہ چھوڑا گیا۔ ان کے پاس ایک تھیلے میں کھجوریں اور ایک مشکیزے میں پانی تھا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس لوٹنے لگے تو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے ان کا پیچھا کیا اور کہنے لگیں، اے ابراہیم! آپ ایسی وادی میں ہمیں چھوڑ کر جس کے اندر کوئی انسان یا چیز نہیں، کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے کئی مرتبہ یہ الفاظ دہرائے، لیکن انہوں نے ان کی جانب مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ صرف یہی فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے۔ کہنے لگیں، یہ بات ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام لوٹ گئے اور چلتے رہے، یہاں تک کہ ثنیہ کے مقام پر پہنچے جہاں سے وہ انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے تو بیت اللہ کی جانب منہ کر کے، دونوں ہاتھ اٹھا کر، ان لفظوں میں دعا کی: اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نامے میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی (ابراہیم : 37) یہاں تک کہ وہ شکرگزاری کو پہنچیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور اسی پانی سے پیتی پلاتی رہیں، یہاں تک کہ مشکیزے کا پانی ختم ہوگیا، جس کے باعث انہیں اور ان کے لخت جگر کو پیاس محسوس ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ بچہ پیاس سے تڑپ رہا ہے یا فرمایا ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ وہ اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں قریب ہی صفا پہاڑ تھا اس پر چڑھ کر وادی کی جانب نظر دوڑائی کہ کوئی نظر آئے لیکن نظر کوئی نہ آیا۔ پس یہ صفا سے اتر آئیں اور وادی میں آکر، دامن سمیٹ کر یوں دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیبت زدہ آدمی دوڑتا ہے، یہاں تک کہ وادی کو طے کرلیا اور مروہ پہاڑی پر پہنچیں تو اس پر کھڑی ہوکر نظر دوڑائی کہ کوئی نظر آئے لیکن نظر کوئی نہ آیا۔ پس یہی عمل انہوں نے سات مرتبہ کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ اسی لیے لوگوں کو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا پڑ تاہے۔ جب یہ (آخری مرتبہ) مروہ پہاڑی پر چڑھیں تو انہوں نے ایک آواز سنی اور ان کے دل میں خیال آیا کہ اس کو سننا چاہیئے۔ چنانچہ انہوں نے کان لگا کر سنا، پھر کہنے لگیں: تو نے آواز تو سنائی لیکن کاش! تیرے پاس کوئی آڑے وقت میں مدد کرنے والا بھی ہوتا:

فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَکِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ أَوْ قَالَ بِجَنَاحِهِ حَتَّی ظَهَرَ الْمَاءُ فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هٰـکَذَا وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهْوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله و سلم يَرْحَمُ اﷲُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَکَتْ زَمْزَمَ أَوْ قَالَ لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ لَکَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا.

اسی دوران انہوں نے زمزم کے مقام پر ایک فرشتے کو دیکھا، تو اس نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ پر مارا، یہاں تک کہ پانی نکلنے لگا: وہ حوض کی شکل (ریت مٹی سے) بنا کر اسے روکنے لگیں اور پانی میں سے چلو بھر بھر کر اپنے مشکیزے میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم فرمائے، اگر انہوں نے زمزم کو کھلا چھوڑ دیا ہوتا یا فرمایا کہ چلو نہ بھرے ہوتے تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا۔

بخاري، الصحيح، 3: 1227-1228، رقم: 3184، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری