جواب:
مرحوم کی جائیداد ورثاء میں شرعی اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ والد کی جائیداد سے بیٹا، بیٹیاں اور دیگر ورثاء حصہ پائیں گے‘ کسی کو محروم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو وارث بھی صاحبِ نصاب ہوگا اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر بیٹا صاحبِ نصاب ہے تو وہ زکوٰۃ دے گا، اگر والدہ صاحبِ نصاب ہے تو وہ زکوٰۃ دے گی، اگر دونوں ہیں تو دونوں پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
والدہ اپنی مستحقِ زکوٰۃ بیٹی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے اصول (جن سے پیدا ہوا ہے‘ جیسے: ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) کو اور فروع (جو اس سے پیدا ہوئے ہیں‘ جیسے: بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو زکوٰۃ، عشر، فطرانہ اور فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس وغیرہ نہیں دے سکتا۔ اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ان کا ایک دوسرے کی مدد کرنا، نان و نفقہ فراہم کرنا فرض ہوتا اس شریعت نے حکم دیا ہے کہ ان کی مدد اور خدمت اپنے اصل مال سے کریں‘ نہ کے مال کے میل (زکوٰۃ) سے۔ ان کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اوران کی اولاد، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد اگر غریب ومستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ، فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب ہے۔ اوّل فرض ادا کرنے کا‘ دوم صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کا۔ اس لیے مذکوہ والدہ کا فرض ہے کہ اگر وہ صاحبِ نصاب ہے تو بیٹی کی مدد کرے، بیٹی کو لباس، اشیائے خوردونوش اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں مدد کرے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔