جواب:
رقیہ شرعیہ سے مراد شرعی دَم درود ہے۔ امام ابنِ اثیر نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
الرُّقْيَةُ العُوذة الّتی يُرْقیٰ بها صاحبُ الآفةِ کالحُمَّی والصَّرَع وغير ذلک من الآفات، و قد جاء فی بعض الأَحاديث جوازُها و فی بعضِها النَّهْيُ عنها.
’’رُقْيَۃُ‘‘وہ دُعا جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بے ہوشی وغیرہ، آفات۔ بعض احادیث میں اس کا جواز اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔
وہ مزید فرماتے ہیں:
فمنَ الجواز قوله: استَرْقُوا لَها فاِنَّ بها النَّظْرَة، أی اطْلبُوا لها من يَرْقِيها.
’’جواز کی ایک مثال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے : اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظربد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو!‘‘ اور ممانعت کی ایک مثال یہ ہے :
لا يَسْتَرْقُون ولا يَکْتَوُون.
’’نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں۔‘‘
جھاڑ، پھونک اوردم درود کی تائید اور مخالفت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ دونوں اطرف کی ان احادیث میں مطابقت یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ جھاڑ پھونک مکروہ ہے : (1)جو عربی زبان میں نہ ہو (2) اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اس کی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو اور عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دیگا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔ یہی مطلب فرمان پاک کا ہے :
ماتوکّلم من استرقیٰ.
’’جس نے جھاڑ پھونک کیا اس نے توکل نہیں کیا‘‘
اس کے خلاف جو جھاڑ پھونک ہے وہ مکرہ نہیں :
کالتعوّذ بالقرآن وأَسمآء اﷲ تعالٰی والرَُّقَی المَرْوِيَةِ.
’’جیسے قرآن کریم اور اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ اور اس کی صفات اور اس کی نازل کی گئی کتابوں میں جو کلام پاک ہے اور جو دم جھاڑ حدیث پاک میں مروی ہے۔‘‘
اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا : ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ)‘‘اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اعْرِضُو ْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله.
’’وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔ رہا سرکار کا یہ فرمان کہ : ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ الخ
علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5 : 294، طبع بيروت
علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10 : 154، طبع بيروت
دم، درود اور تعویذات کی شرعی حیثیت کے مطالعے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
دم، درود کے عوض پیسے لینا کیسا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔