عاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:4158
ایک والد کے 3 بیٹے ہیں۔ انتقال کے بعد دونوں بڑے بیٹے کہیں کہ وصال سے دو سال پہلے والد صاحب نے ہمیں وصیت کی تھی کہ چھوٹے بیٹے کو گھر سے نکال دینا اور جائیداد سے محروم کر دینا۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • سائل: محمد سلیم طاہرمقام: شیخوپورہ
  • تاریخ اشاعت: 22 فروری 2017ء

زمرہ: وصیت

جواب:

انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقۂ کار اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے، اس میں کسی کمی و بیشی یا ترمیم و اضافے کا حق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ضابطۂ وراثت کے مطابق ہر وارث کا حصہ مقرر ہے جس سے اسے کوئی محروم نہیں کرسکتا:

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا.

مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔

النساء، 4: 7

آئمہ و علمائے کرام نے حقِ وراثت سے محرومی کی درج ذیل وجوہات ذکر کی ہیں:

  1. قتل
  2. اختلاف دین
  3. غلامی

سوال مسؤلہ میں یہ تینوں صورتیں نہیں پائی جا رہیں۔ یہ وراثت سے محروم کرنے کی باپ کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اپنے سوال میں آپ نے بتایا کہ بڑے بیٹوں کا دعویٰ ہے کہ والد صاحب نے چھوٹے بیٹے کو گھر سے نکالنے اور جائیداد سے محروم کرنے کا کہا تھا، اگر دونوں بیٹوں کو کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد چھوٹے بیٹے کو گھر سے نکال دینا تو یہ کارِ خیر وہ اپنی زندگی میں خود کرتے۔ تینوں بیٹے مسلمان ہیں، ان میں سے کوئی باپ کا قاتل نہیں ہے اور باپ کے مرتے وقت زندہ تھے، اس لیے تینوں باپ کے کل قابل تقسیم ترکہ میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

اگر کوئی باپ اپنی زندگی میں کسی وجہ سے بیٹے یا کسی وارث کو اپنی جائیداد سے عاق بھی کر دے تو اس کا مطلب ہے وہ شخص اس کی زندگی میں‘ اس کی جائیداد میں کوئی تصرف نہیں رکھتا۔ جونہی عاق کرنے والا فوت ہوگیا‘ عاق نامہ ختم ہو جائے گا۔ اگر بیٹا نافرمان ہے تو وہ اس نافرمانی کی سزا اللہ کے ہاں پائے گا، لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی جائیداد سے محروم کرے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی