جواب:
شیخ علی احمد الجرجاوی اپنی کتاب ’حکمۃ التشریع وفلسفتہ (2 : 330)‘ میں جہاد کے مفہوم اور مقصود کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اَلْجِهَادُ فِي الإِْسْلَامِ هُوَ قِتَالُ مَنْ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا لِتَقْوِيْضِ دَعَائِمِ الأَمْنِ وَإِقْلَاقِ رَاحَةِ النَّاسِ وَهُمْ اٰمِنُونَ فِي دِيَارِهِمْ أَوِ الَّذِيْنَ يُثِیرُوْنَ الْفِتَنَ مِنْ مَکَامِنِهَا إِمَّا بِإِِلْحَادٍ فِي الدِّيْنِ وَخُرُوْجٍ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَشَقِّ عَصَا الطَّاعَةِ أَوِ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ إِطْفَاءَ نُوْرِ اﷲِ وَيَنْاؤَوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْعَدَاءَ وَيُخْرِجُوْنَهُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ويَنْقُضُونَ الْعُهُوْدَ ويَخْفِرُوْنَ بِالذِّمَمِ. فَالْجِهَادُ إِذَنْ هُوَ لِدَفْعِ الْأَذَی وَالْمَکْرُوهِ وَرَفْعِ الْمَظَالِمِ وَالذَّوْدِ عَنِ الْمَحَارِمِ.
’’اِسلام میں جہاد کا مفہوم ان لوگوں کی سرکوبی کرنا ہے جو اَمن کو تباہ و برباد کرنے، اِنسانوں کے آرام و سکون کو ختم کرنے اور اﷲ کی زمین میں فساد انگیزی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خصوصاً اُس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں انتہائی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں (یعنی Civilians اور Non-Combatants ہوں)، یا ان لوگوں کے خلاف جد و جہد کرنا جو پوشیدہ جگہوں اور خفیہ طریقوں سے (اَمنِ عالم کو تباہ کرنے کے لیے) فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں، خواہ (یہ کاوش) کسی کو دین سے منحرف کرنے کی صورت میں ہو یا جماعت سے باغی کرنے اور اطاعت کی زندگی سے رُوگردانی کرنے کے لیے ہو یا ان لوگوں کے خلاف ہو جو اﷲ کے نور کو (ظلم و جبر سے) بجھانا چاہتے ہوں اور مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں (اپنے وطن سے نکال کر) دور بھگانا چاہتے ہوں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرتے ہوں، عہد شکنی کرتے ہوں اور باہمی اَمن و سلامتی کے معاہدات کی پاس داری نہ کرتے ہوں۔ غرضیکہ جہاد اِنسانیت کے لیے اَذیت و تکلیف دہ ماحول اور ناپسندیدہ، ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو ختم کرنے اور محارم کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔‘‘
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں لفظ جہاد کا مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کے لیے جد و جہد میں اگر اِنتہائی طاقت اور محنت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، تو اس کوشش کو جہاد کہیں گے۔ جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے، نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے اور نہ ہی حکومت کے حصول کے لیے کی جانے والی مسلح جدوجہد کو جہاد کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اِسلام میں ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔ جہاد محض جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ اِسلام نے تصورِ جہاد کو بڑی وسعت اور جامعیت عطا کی ہے۔ اِنفرادی سطح سے لے کر اِجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اَمن و سلامتی، ترویج و اِقامتِ حق اور رضاء اِلٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔ دین میں ظلم و عدوان کے خلاف جدجہد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہیں انسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہو، ان پر زیادتی کی جا رہی ہو، انھیں دین پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہو تو یہ فتنہ ہے، اس فتنے کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔
دین اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے، لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے کہ:
أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا.
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حکمران ڈھال کی طرح ہوتا ہے، اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے بچاؤ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے اور عدل کرنے کا حکم دے تو یہ باعث اجر ہے۔ اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور حکم دے تو اس کا بوجھ خود اسی پر ہوگا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ اُن کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کریں۔ مسلمانوں کو یہ حکم اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ اِس کی جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں، وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اُن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اِس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی اُن کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ اُن کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ اُن کی طرف سے اِس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔
سیاسی گروہوں کی سیاسی جدوجہد دنیاوی سیاست ہے، اسے خواہ مخواہ دینی عنوانات دینے سے صورت حال پیچیدہ ہوتی ہے۔ سیاسی جدوجہد کو دینی اصطلاح دے کر مخالفین کو قتل کرنا دین کی رو سے جائز نہیں۔ امت مسلمہ کی حالت زار کے پیش نظر تدبیر کی سطح پر بھی اس طرح کی لڑائیاں امت کے مجموعی تشخص اور مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہیں۔ ہماری دانست میں ایسے گروہوں کو ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر یہ واقعی اسلام کے نفاذ کے لیے لڑ رہے ہیں اور عوام ان کو پسند کرتے ہیں تو انہیں ہتھیار اٹھانے، غاروں میں جانے، مارنے اور مارے جانے کی ضرورت ہی نہیں‘ وہ انتخابات میں شامل ہوں لوگ انہیں منتخب کر کے مسندِ اقتدار پر براجمان کر دیں گے۔ اس صورت میں عالمی دنیا بھی ان کی بات سننے کے لیے تیار ہوگی اور ان کے مؤقف کو بھی اہمیت دی جائے گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔