کیا ڈبل سٹوری مسجد بنانا جائز ہے؟


سوال نمبر:4151
السلام علیکم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ کیا ڈبل سٹوری مسجد بنانا بدعت اور خلافِ شرع ہے؟ مسجد کی کتنی سٹوریز بنائی جاسکتی ہیں؟ بڑے شہروں‌ میں مساجد کی ٹوائیلٹس کے ٹھیکے ہوتے ہیں اور ٹھیکدار نماز کے علاوہ کے اوقات میں ٹوئیلٹ استعمال کرنے کے پیسے لیے ہیں، یہی پیسے بعد میں مسجد فنڈ میں استعمال ہوتے ہیں، کیا اس پیسوں‌ کا مسجد کے لیے استعمال جائز ہے؟

  • سائل: احمد گوندلمقام: میانہ گوندل
  • تاریخ اشاعت: 14 مارچ 2017ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

اسلام کے صدر اوّل میں مسلمانوں رہائشی مکانوں کی طرح مساجد پختہ بنائی جاتیں تھیں نہ ہی مساجد کے مینار کھڑے کیے جاتے تھے۔ جوں جوں وسائل میں ترقی ہوئی، تہذیب و تمدن پر اسلامی زندگی کے اثرات ہونا شروع ہوئے، رہائش و آرائش کے طور طریقے تبدیل ہوئے تو مساجد کی تعمیر پر بھی اس کے اثرات ہوئے۔ مساجد کو دیدہ زیب اور سہولیات سے آراستہ کیا جانے لگا۔ یہ بدعت (نئی شے) تو تھی، مگر فقہائے امت نے اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بدعتِ حسنہ قرار دیا۔ ﴿بدعت کے بارے میں اسلام کا تصور جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے: بدعت کیا ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟  آجکل شہروں میں جگہ کی قلت اور دیگر مسائل کی وجہ سے ڈبل، ٹرپل یا زاید سٹوریز مساجد بن رہی ہیں، تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:

لأهل المحلة تحويل باب المسجد... لهم تحويل المسجد إلی مکان آخر إن ترکوه بحيث لايصلي فيه ولھم بيع مسجد عتيق لم يعرف بانيه وصرف ثمنه في مسجد آخر.

محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں۔۔۔ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 357، بيروت: دار الفکر للطباعة والنشر

حوض أو مسجد خرب وتفرق الناس عنه فللقاضي أن يصرف أوقافه إلی مسجد آخر ولو خرب أحد المسجدين في قرية واحدة فللقاضي صرف خشبة إلی عمارة المسجد الآخر.

حوض یا مسجد ویران ہو جائیں اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی (عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں، دو مسجدوں میں سے ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ) دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔

  1. زين الدين ابن نجيم، البحر الرائق، 5: 273، بيروت: دار المعرفة
  2. عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقي الأبحر، 2: 5۹5، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

مزید فرماتے ہیں:

بخلاف ما إذا کان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملک فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فھو کسرداب مسجد بيت المقدس.

اگر مسجد کا تہہ خانہ یا اوپر (چھت) مقاصد مسجد کے لئے وقف ہے تو یہ جائز ہے کہ اس میں کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اس میں مقاصد مسجد کی تکمیل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسجد اقصیٰ کے پانی ذخیرہ کرنے کے سرد خانے۔

  1. ابن نجيم، البحر الرائق، 5: 271
  2. ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 4: 357

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ مسجد کی عمارت میں ہر ایسا تغیر وتبدل جس سے مقاصد مسجد میں خلل نہ آئے اور اس سے نمازیوں کے لئے سہولت پیدا ہو تو وہ جائز ہے۔ ایسے مسائل ضرورت وحالات کے پیش نظر ہوتے ہیں، مقصد دین اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے مواقع پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا مسجد کی آباد کاری اور ترقی کے لئے عمارتی تبدیلیاں جائز ہیں۔ ملکی قانون اور انجنئیرز کی رائے کے مطابق جتنی سٹوریز بنانے کی گنجائش ہو بنا سکتے ہیں۔

مسجد کے ٹوائیلٹس اصلاً تو مسافروں کے استعمال کے لیے بنائے جاتے ہیں، بہتر یہی کہ مسافروں کے لیے انہیں کھلا ہی چھوڑا جائے۔ تاہم اگر نماز کے اوقات کے علاوہ استعمال پر لوگوں سے پانی و بجلی اور تعمیر و مرمت کے اخراجات وصول کیے جاتے ہیں تو انہیں مسجد فنڈ میں شامل کرنا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری