جواب:
جدید سائنس اپنی تحقیقات کو بنیاد بنا کر اِس کائناتی سچائی تک رسائی حاصل کر چکی ہے کہ رفتار میں کمی و بیشی کے مطابق کسی جسم پر وقت کا پھیلنا اور سکڑ جانا اور جسم کے حجم اور فاصلوں کا سکڑنا اور پھیلنا قوانینِ فطرت اور منشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔ ربِّ کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں طئزمانی اورطئ مکانی کی بعض صورتوں کا ذِکر فرما کر بنی نوع اِنسان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اِنسان تو بیسویں صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پر وقت اور جگہ (Time & Space) کے اِضافی (Relative) تصوّرات کو اپنے حیطۂ اِدراک میں لانے میں کامیاب ہو گا لیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوائل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِن کائناتی سچائیوں کو منکشف کر رہے ہیں۔
لاکھوں کروڑوں کلومیٹرز کی وُسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کو اِصطلاحاً ’طئ مکانی‘ کہتے ہیں۔
صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو اِصطلاحاًً ’طئ زمانی‘ کہتے ہیں۔
خدائے قدیر و خبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام اور اولیائے عظام میں سے کسی کو معجزہ اور کرامت کے طور پر طئ زمانی اور کسی کو طئ مکانی کے کمالات عطا کرتا ہے لیکن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج معجزاتِ طئ زمانی اور طئ مکانی دونوں کی جامعیت کا مظہر ہے۔ سفر کا ایک رخ اگر طئ زمانی کا آئینہ دار ہے تو اُس کا دوسرا رخ طئ مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران میں اِن معجزات کا صدور نصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، جن کی صحت میں کسی صاحبِ اِیمان کے لئے اِنحراف کی گنجائش نہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا ’’بلقیس‘‘ کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO
(النمل، 27 : 38)
(حضرت سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا : اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیں۔
ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربارِ سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے اپنے پایۂ تخت سے روانہ ہو چکی ہے، اُس کا تخت اُس کے آنے سے قبل ہی سرِدربار پیش کر دیا جائے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے :
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO
(النمل، 27 : 39)
ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : ’’میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانتدار ہوں۔
قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئی مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لاکر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اس موقع پر آپ کا ایک صحابی ’آصف بن برخیا‘ جس کے پاس کتابُ اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اِس اَنداز کو قرآنِ کریم نے اِس طرح بیان فرمایا :
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي.
(النمل، 27 : 40)
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے۔ پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا یہ میرے رب کا فضل ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک برگزیدہ صحابی آنکھ جھپکنے سے پیشتر تختِ بلقیس اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کر دیتا ہے۔ یہ طئ مکانی کی ایک نا قابلِ تردِید قرآنی مثال تھی کہ فاصلے سمٹ گئے، جسے قرآن حکیم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے منسوب کیا ہے۔ اگر اِس کرامت کا صدور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبئ آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی کیا حد ہو گی! مردِ مومن کا اِشارہ پاتے ہی ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِ پا آ جاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ:
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
قرآن ہر علم، حکمت اور دانائی کا سرچشمہ ہے جو کائنات کے رازہائے سربستہ کو ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف کرتا ہے اور اُس میں شعور و آگہی کے اَن گِنَت چراغ روشن کرتا ہے۔ طئ زمانی کا ذِکر بھی ربِّاَرض و سماوات کی آخری اِلہامی کتاب میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اَصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات طئ زمانی کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ اِن دونوں واقعات میں خرقِ عادت اور محیّرالعقول میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات اِسی کرۂ ارضی پر وُقوع پذیر ہوئے اور طئی زمانی کے حصول کے لئے سماوِی کائنات (Outer Cosmos) میں روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کیا گیا، مگر پھر بھی ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کا نظارہ کیا عجب ہے کہ وقت تھم گیا اور مادّی اَجسام بھی محفوظ رہے اور صدیوں پر محیط عرصہ بھی بیت گیا۔
قرآنِ حکیم طئ زمانی کی مثال اصحابِ کہف کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے کہ تین سو نو سال تک وہ ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو انہیں یوں گمان ہوا گویا وہ محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں۔ قرآنِ مجید اِس محیرالعقول واقعہ کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :
قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ.
(الکهف، 18 : 19)
اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو‘‘؟ اُنہوں نے کہا : ’’ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں‘‘۔
309 سال گزر جانے کے باوجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور اُن کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ طئ زمانی کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اصحابِ کہف اور اُن کا کتا غار میں مقیم رہے اور مُرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ مجید کے اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن کے جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 سالوں کے شمسی موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اَجسام تروتازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر صدیوں پر محیط اُس مدت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نشانی اور قدرتِ الٰہیہ کا ظہور تھا جس سے عادتِ الٰہیہ کے پیمانے سمٹ گئے۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :
وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ.
(الکهف، 18 : 17)
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اُس نے اصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اُس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی 300 مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا۔
خدائے رحمٰن و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلا دیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کردی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کردیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں پچاس ہزار سال کا دِن اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا، جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہو گا۔ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
طئ زمانی کی ایک اور مثال قرآن حکیم نے حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں بیان کی ہے۔ انہوں نے حصولِ حق الیقین کے لئے اللہ تعالیٰ سے طئی زمانی کے بارے میں سوال کیا۔ اُن کے سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بطورِ مشاہدہ اُن پر ایک سو سال کے لئے موت طاری کر دی اور پھر بعد ازاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے۔ قرآن کہتا ہے :
فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ.
(البقره، 2 : 259)
سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اُسے سو برس تک مُردہ رکھا۔ پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد ازاں) پوچھا : ’’تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)‘‘؟
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوتے رہنے کے بعد جب حضرت عُزیر علیہ السلام کو اللہ ربّ العزّت کی طرف سے نئی زِندگی عطا ہوئی، تواُن سے یہ پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ لیٹے رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا :
لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ.
(البقره، 2 : 259)
’’میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں‘‘۔ فرمایا : ’’(نہیں) بلکہ تو سو برس پڑا رہا (ہے)‘‘۔
حضرت عزیر علیہ السلام کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ اُنہیں تو لیٹے ہوئے 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اُن کے پاس کھانے کا جو سامان تھا وہ بھی جوں کا توں تر و تازہ رہا اور اُس میں کوئی عفونت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کی توجہ اس طرف دِلانے کے لئے اِرشاد ہوا :
فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ.
(البقره، 2 : 259)
پس اب تو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔
قدرتِ خداوندی ہے کہ ایک طرف تو حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام اور مشروب میں عفونت اور سرانڈ تک پیدا نہ ہوئی اور وہ جوں کے توں تر و تازہ رہے جبکہ دُوسری طرف اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے سامنے اُس گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی طئ زمانی کی تصدیق کر رہی ہیں اور اِس کوشش میں ہیں کہ کسی لاعلاج مریض پر مصنوعی موت طاری کر کے اُسے طویل مدّت تک سرد خانے میں محفوظ رکھا جائے اور جب اُس کے مرض کا علاج دریافت ہو جائے تو اُس کے جسم میں دوبارہ سے زِندگی کی لہر دوڑا کر اُس مریض کا علاج کیا جائے اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اُسے ایک بار پھر روزمرّہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنا دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اُس وقت تک اُس کی اپنی اولاد میں سے کئی نسلیں موت سے ہمکنار ہو چکی ہوں۔ اِنسان کا یہ خواب اَب خواب نہیں رہے گا۔
جدید سائنس اپنے اِرتقاء کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید میں درج سائنسی حقائق کی توثیق کرتی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے سائنسدان اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود قرآن کو اِلہامی کتاب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ آج نہیں تو کل عقلی بنیادوں پر تشکیل پانے والا ذہنِ جدید تعلیماتِ اِسلامی کی سچائیوں کے اِعتراف میں پیش پیش ہو گا، اِس لئے آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہے۔ مغربی دُنیا کے پاس اِسلامی تعلیمات کی حقّانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کے سِوا کوئی چارہ نہ ہو گا اور مصطفوی اِنقلاب کا سورج مغرب کے اُفق پر بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔ زمین پر اُترنے والا ہر لمحہ اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے رہا ہے۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیر علیہ السلام کی اِس مثال میں طئ زمانی کا کیا منظر تھا کہ 100 سال کا عرصہ گزر گیا اور اس کے باوجود اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچا اور وہ موسموں کے تغیر و تبدّل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہا۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر بھی اِس طرح سمٹ گیا کہ اُن کی تروتازگی میں بھی کوئی فرق نہ آیا، لیکن وُہی ایک صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اِحیائے موتیٰ کا نظّارہ کرانے کے لئے اُن کے گدھے پر تجلّی کی تو 100 سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زِندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو طئ زمانی اور اِحیائے موتیٰ کے منظر دِکھلا دیئے۔
خداکی ذات اگر بنی اِسرائیل کے ایک پیغمبر کو اپنی قدرتِ خاص کے کرِشمے دِکھا سکتی ہے تو اپنے حبیب نبئ آخر الزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اِس سے بڑھ کر معجزے کیوں برپا نہیں کر سکتی؟ اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ شبِ معراج صاحبِ لولاک فخرِموجودات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمان و مکاں (Time & Space) کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قَابَ قَوْسَيْن پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دِیدار کا شرف اِس طرح اَرزانی فرمایا کہ ایک طرف خدا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سمیع و بصیر تھا تو دوسری طرف حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خدا کا سمیع و بصیر تھا، اور دونوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ تھا۔
بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِه
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِه
حَسُنَتْ جَمِيْعُ خِصَالِه
صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ آلِه
شبِ معراج تاجدارِ کائنات رسولِ کون و مکاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا کیا مقامات عطا ہوئے! اُنہیں عظمت و رِفعت کی کن بلندیوں سے ہمکنار کیا گیا! اِرتقائے نسلِ اِنسانی کو تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں پر دستک دینے کی کس طرح ترغیب دی گئی! اُس شب کتنی مسافتیں طے ہوئیں اور کتنے زمانے بیت گئے! اِس کا حال اللہ ربّ العزّت اور اُس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سِوا کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔ ہم غلامانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بس اِتنا جانتے ہیں کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر پوری خدائی کی طنابیں کھینچ لی گئیں۔ چرخِ نیلوفری دَم بخود تھا کہ یہ کون مہمانِ مکرم لامکاں کی سیر کو نکلا ہے۔ ستارے حیرت کی تصویر بنے رہگزرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرد کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا رہے تھے۔ وقت کی نبضیں ایک جگہ تھمی کی تھمی رہ گئیں اور کائنات بے حس و حرکت اور ساکت اپنے رُوحِ رواں کے اِنتظار میں ایک نقطے پر ٹھہری رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ نبوت میں عقلِ اِنسانی نے کرۂ ارضی پر محیط فضا کے غلاف کو عبور کرتے ہوئے چاند پر پہنچ کر معجزۂ معراجِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِمکان کی نشاندہی تو کر دی لیکن اُس منزل تک پہنچنا معجزہ ہے اور سیارگانِ فلکی تک پہنچنا اُس منزل کی تائید اور سفرِمعراج کی توثیق ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق ہے اور یہ تائید و توثیق فقط نشاندہی کی حد تک ہے کیونکہ اگر عقلِ اِنسانی بھی منزلِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جائے تو پھر نبوت کا معجزہ ہی باقی نہ رہے۔ اِس لئے اِنسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جتنی بھی ترقی کر لے آسمان کی حدود کو پھلانگ کر اور مکاں کی حدوں کو چھوڑ کر کبھی وہ لامکاں کی بلندیوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ سفرِمعراج کے نقوشِ پا کو چومنا تو اُس کا مقدّر بن سکتا ہے لیکن منزلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی روزِ قیامت تک اُس کے لئے ممکن نہ ہو سکے گی۔ علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
تو معنی ’’وَالنَّجْم‘‘ نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدّ و جزر ابھی چاند کا محتاج
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔