کیا غیرمحرم سے دوستی جائز ہے؟


سوال نمبر:4121
السلام علیکم! مفتی صاحب کیا لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی جائز ہے؟ وہ والدین کو دھوکہ دیتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ڈیٹ پر جانے کی سزا کیا ہے؟ اس سے بچنے اور بچوں کو بچانے کا کیا طریقہ ہے؟

  • سائل: سلمہ جٹمقام: یورپ
  • تاریخ اشاعت: 07 فروری 2017ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

اسلام میں بغیر نکاح کئے لڑکے اور لڑکیوں میں دوستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر عورتوں کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo

اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔

الاحزاب، 33: 32

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِیبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ اﷲَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 309، رقم: 14364، مؤسسة قرطبة مصر
  2. ترمذي، السنن، 3: 475، رقم: 1172، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. طبراني، المعجم الکبير، 9: 14، رقم: 8984، مکتبة الزهراء الموصل

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ إِيَاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اﷲِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ.

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2005، رقم: 4934، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 4: 1711، رقم: 2172، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 149، رقم: 17385
  4. ترمذي، السنن، 3: 474، رقم: 1171

یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ.

حضرت ابن عباسٍ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2005، رقم: 4935
  2. مسلم، الصحيح، 2: 978، رقم: 1341
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 222، رقم: 1934

لہٰذا بغیر نکاح کے لڑکوں اور لڑکیوں کا والدین سے چھپ کر ملاقاتیں کرنا حرام عمل ہے۔ کیونکہ یہی ملاقاتیں زنا کا سبب بنتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے زنا کے سدّباب کے لیے اس طرح کے تمام راستوں کو روکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.

اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔

بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17: 32

اپنے سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے ملاقات کی سزا کے بارے میں دریافت کیا ہے، ہماری نظر میں اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ ملاقات پر کوئی حد تو لاگو نہیں ہوتی، تاہم عدالت یا ریاست تعزیراً کوئی سزا دے سکتی ہے۔ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ جتنی مناسب سمجھے سزا تجویز کر سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ اس کا اعتراف کر لیں یا چار گواہ ان کے جرم کی شہادت دیں تو ان کو حداً زنا کی سزا دی جائے گی۔ زنا کی حد غیرشادی شدہ کے لیے سو (100) کوڑے اور شادی شدہ کے لیے سنگساری کی سزا ہے۔ یہ سزا ریاست اور ریاستی ادارے جاری کریں گے، کوئی فرد واحد اپنے طور پر حد لاگو نہیں کرسکتا۔

بےراہ روی اور ایسے مسائل سے بچوں اور بچیوں کو بچانے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی شادی وقت پر کردیں تاکہ وہ جائز رشتوں میں منسلک ہوکر ایسی برائیوں سے بچ سکیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری