جواب:
ہر نیک عمل کے پیچھے حسنِ نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
إِذَا هَمَّ عَبْدِي بِحَسَنَةٍ وَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبْتُهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كَتَبْتُهَا لَهُ عَشْرَ حَسَنَات إِلَى سَبْعِمَائَةِ ضِعفٍ.
مسلم، الصحيح، 1: 117، رقم: 128، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربى
یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا
’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔
(الانعام، 6: 166)
یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ.
ابن آدم کے ہر عمل میں روزے کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بے شک روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔
مسلم، الصحيح، 2: 807، رقم: 1151
نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔ کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لالٹین جیسی، کسی کی چراغ جیسی، کسی کی بلب جیسی، کسی کی ٹیوب لائٹ جیسی، کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔ الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود خالصیت اور للہیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر عمل میں دکھوا پایا جائے تو وہ محض ایک عمل بن جاتا اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَاج وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَاط
اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں۔
آل عمران، 3: 145
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.
بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
نِيَّةُ المُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ، وَعَمَلُ المُنَافِقِ خَيْرٌ مِنْ نِيَّتِهِ.
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے۔
طبراني، المعجم الکبير، 6: 185، رقم: 5942، الموصل: مکتبه الزهراء
اس لیے مقدار زیادہ ظاہر کر کے عمل کے اجر و ثواب بڑھایا نہیں جاسکتا۔ اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیے گئے عمل کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ اس لیے دورد و سلام کو ایک جگہ لکھوانے کے بعد دوبارہ دوسری جگہ لکھوانے کی ضرورت نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔