مسلکِ اہلِ سنت و الجماعت کو شخصیات سے منسوب کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:4097
عزت مآب مفتی صاحب قبلہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برا کاتہ! میرا سوال یہ ہے کہ اہلِ سنت کو مسلک اعلٰی حضرت کہنا کیسا ہے؟ بعض مفتیان کرام اس کے جواز کے قائل ہیں، جبکہ بعض یہ کہتے ہیں کہ مسلک کو کسی ایک شخصیت کے نام کے ساتھ منسوب کرنا آقا ﷺ کے رکھے ہوئے نام ’اہل سنت و الجماعت‘ سے انحراف کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس قول کو مانا جائے اور کس سے چھوڑا جائے؟ براہِ مہربانی مدلل جواب عنایت فر مائیں۔ نوازش ہوگی۔

  • سائل: سید تنویر حسین بخاریمقام: پو نچھ، جموں وکشمیر، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2017ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

اہلِ سنت و الجماعت ایک عالمگیر اور پندرہ سو سال سے قائم ایک مستقل پہچان ہے جو حدیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے اور دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیکر موجودہ دن تک سوادِ اعظم کے لیے عرب و عجم میں مستعمل اصطلاح ہے۔ اسے کسی ایک شخصیت کی طرف منسوب کر کے بحرِ بےکراں کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔

مجددِ دین و ملت، شیخ الاسلام امام احمد رضا خان حنفی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ اور عقائدِ اہل سنت والجماعت کی ترویج و اشاعت کا کام کیا، مگر آپ نے اپنی زندگی میں کبھی اسے بریلوی مسلک، مسلکِ اعلیٰ حضرت یا مسلکِ رضا خانیہ کا نام نہیں دیا۔ کیونکہ جن عقائد کی آپ نے ترویج کی وہ سوادِ اعظم کے عقائد ہیں اور سوادِ اعظم کا نام ہمیشہ سے اہلِ سنت والجماعت ہی رہا ہے۔ اگر مسلکِ اعلیٰ حضرت کے دعویٰ کو درست مان لیا جائے تو معترضین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ مسلک تو ایک صدی پہلے کی پیداوار ہے جس کے سارے عقائد دورِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیرہ سو سال بعد بنائے گئے۔ اہلِ سنت والجماعت کو شخصیات کی طرف منسوب کرنے کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی تو ہر شخص اپنی الگ ٹکڑی بنا کر الگ اصطلاح رائج کر لے گا۔ ہماری دانست میں سوادِ اعظم کے لیے اہلِ سنت والجماعت کے علاوہ کوئی اور عنوان استعمال یا قبول کرنا اپنے مسلک سے دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری