جواب:
آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل ہیں:
عَنْ سَالِمٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَی الصَّلَاةِ فَذَکَرُوا الْبُوقَ فَکَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ ثُمَّ ذَکَرُوا النَّاقُوسَ فَکَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَی فَأُرِيَ النِّدَاءَ تِلْکَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ عَبْدُاﷲِ بْنُ زَيْدٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَطَرَقَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَيْلًا فَأَمَرَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِلَالًا بِهِ فَأَذَّنَ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَزَادَ بِلَالٌ فِي نِدَائِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اﷲِ قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَی وَلَکِنَّهُ سَبَقَنِي.
حضرت سالم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لیے جمع کرنے کے طریقہ پر لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بوق کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہود سے نسبت کے باعث برا سمجھا، پھر لوگوں نے ناقوس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نصاریٰ سے تعلق کے باعث برا سمجھا تو ایک انصاری کو یہ اذان خواب میں دکھائی گئی جن کا نام عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا انصاری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رات ہی کو پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی۔ زہری کہتے ہیں بلال نے صبح کی نماز میں الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْم کا اضافہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرح میں نے بھی خواب دیکھا لیکن یہ مجھ سے سبقت لے گئے۔
ابن ماجه، السنن، 1: 233، رقم: 707، بيروت: دار الفکر
ایک روایت میں ہے:
عَنْ بِلَالٍ رضی الله عنه أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُؤْذِنُهُ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ فَقِيلَ هُوَ نَائِمٌ فَقَالَ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ فَأُقِرَّتْ فِي تَأْذِينِ الْفَجْرِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ.
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبح کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے، معلوم ہوا کہ ابھی حضور محو خواب ہیں، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ (نماز نیند سے بہتر ہے نماز نیند سے بہتر ہے) تو یہ الفاظ صبح کی اذان میں زیادہ کر دیئے گئے اور اسی پر عمل شروع ہو گیا۔
ابن ماجه، السنن، 1: 237، رقم: 716
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد سے ان کے والد محترم نے فرمایا کہ میں عرض گزار ہوا: یارسول اﷲ! مجھے اذان کا طریقہ سکھائیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری پیشانی پر دست مبارک پھیرا اور فرمایا یوں کہا کرو:
اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ تَرْفَعُ بِهَا صَوْتَکَ ثُمَّ تَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ تَخْفِضُ بِهَا صَوْتَکَ ثُمَّ تَرْفَعُ صَوْتَکَ بِالشَّهَادَةِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اﷲِ حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ فَإِنْ کَانَ صَلَاةُ الصُّبْحِ قُلْتَ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ اﷲُ أَکْبَرُ اﷲُ أَکْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ.
اﷲ بہت بڑا ہے، یہ بلند آواز سے کہنا پھر کہنا میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر اﷲ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں، یہ کہتے ہوئے آواز پست رکھنا، پھر بلند آواز سے شہادت دینا میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر اﷲ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمداﷲ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں، آؤ نماز کی طرف، آؤ نمازکی طرف، آؤ نجات کی طرف، آؤ نجات کی طرف اگر وہ صبح کی نماز ہو تو کہے: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ (نماز نیند سے بہتر ہے نماز نیند سے بہتر ہے)، اﷲ بہت بڑا ہے، اﷲ بہت بڑا ہے۔ نہیں کوئی معبود مگر اﷲ۔
أبي داود، السنن، 1: 233، رقم: 707، دار الفکر
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اذانِ فجر میں اضافی کلمات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں، بعد میں شامل نہیں کئے گئے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ يَقْعُدُ بَيْنَهُمَا.
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیا کرتے اور ان کے درمیان بیٹھا کرتے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ کَانَتْ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَکِّرُ النَّاسَ.
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیتے تھے ان کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھتے (خطبہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ کَانَ يَجْلِسُ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّی يَفْرَغَ أُرَاهُ قَالَ الْمُؤَذِّنُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ ثُمَّ يَجْلِسُ فَلَا يَتَکَلَّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیا کرتے اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ مؤذن فارغ ہو جاتا پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے اور کسی سے کلام نہ کرتے پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے۔
عربی سمجھنے والوں کے لئے تو عربی خطبہ میں ہی وعظ ونصیحت کیا جاتا ہے کیونکہ خطبہ کا مقصد وعظ و نصیحت ہے۔ لیکن غیرعربی لوگوں کو عربی کی سمجھ نہیں ہوتی اس لئے اُنہی کی زبان میں پہلے وعظ نصیحت اور اذان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عربی میں مختصر خطبہ دینا شرط ہے۔ عربی خطبہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کے پہلے اور دوسرے حصے کے درمیان بیٹھنا لازم ہے کیونکہ حضورe کا یہی عمل مبارک تھا۔ پہلی اذان کے بعد اردو، انگلش، فارسی یا ضرورت کے مطابق کسی بھی لوکل زبان میں وعظ ونصیحت بیٹھ کر یا کھڑے ہو کرنے میں کوئی پابندی نہیں ہے اصل مقصد لوگوں کو دین اسلام سے آگاہ کرنا ہے لیکن عربی خطبہ کھڑے ہو کر دو حصوں میں دینا اور درمیان میں بیٹھنا شرط ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔