مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچے کی تجہیز و تکفین کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4075
اگر کوئی بچہ پورے نو ماہ بعد مردہ حالت میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی تجہیز و تکفین کا کیا حکم ہوگا؟ اس کی تدفین کہاں کی جائے گی؟ کیا اس کی نمازِ جنازہ اور فاتحہ خوانی کی جائے گی؟

  • سائل: اظہر حسین قادریمقام: کلرسیداں، راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 16 جنوری 2017ء

زمرہ: نماز جنازہ

جواب:

اگر بچہ زندہ پیدا ہو کر روئے تو اسکا نام رکھا جائے گا اور وفات پر اس کو غسل دیا جائے گا اور اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچہ روئے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے اور نہ روئے (مردہ حالت میں پیدا ہو) تو نہ پڑھا جائے، کیونکہ رونا زندگی کی علامت ہے اس لیے اس کے حق میں میت کی سنت محقق ہوئی اور جو نہ روئے اس کو بنی آدم کے احترام کی وجہ سے صاف کپڑے میں لپیٹ کر اس کی تدفین کی جائے گی اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ الرَّاکِبُ خَلْفَ الْجِنَازَةِ وَالْمَاشِي أَمَامَهَا قَرِيبًا عَنْ يَمِينِهَا أَوْ عَنْ يَسَارِهَا وَالسِّقْطُ يُصَلَّی عَلَيْهِ وَيُدْعَی لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ.

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ سوار جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل چلنے والا قریب رہے۔ اور اس کے دائیں اور بائیں چلے۔ اور جو بچہ ساقط ہوجائے اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی جائے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 248، رقم: 18199، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبي داود، السنن، 3: 205، رقم: 3180، دار الفکر

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ الطِّفْلُ لَا يُصَلَّی عَلَيْهِ وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّی يَسْتَهِلَّ.

حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بچہ پیدا ہونے کے بعد جب تک نہ روئے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، نہ وہ وارث ہو گا اور نہ اس کا ترکہ قابل وراثت ہو گا۔

امام ترمذی فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِيثٌ قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيهِ فَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرْفُوعًا وَرَوَی أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَکَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا قَالُوا لَا يُصَلَّی عَلَی الطِّفْلِ حَتَّی يَسْتَهِلَّ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِیِّ.

اس حدیث (کی روایت) میں اضطراب ہے، بعض رواۃ نے اسے بواسطہ ابوزبیر اور جابر رضی اللہ عنہما نے حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا اور اشعث بن سوار رضی اللہ عنہما اور کئی دوسرے راویوں نے اسے ابوزبیر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا۔ مرفوع روایت سے یہ زیادہ صحیح ہے۔ بعض علماء کا اس پر عمل ہے، وہ فرماتے ہیں بچہ پیدائش کے بعد جب تک نہ روئے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، سفیان ثوری اور امام شافعی رضی اللہ عنہما اسی کے قائل ہیں۔

ترمذي، السنن، 3: 350، رقم: 1032، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

بچہ زندہ پیدا ہو کر فوت ہو جائے خواہ ایک ہی سانس لے، تو غسل و کفن کے بعد اس پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ یہی احناف کا بھی مؤقف ہے۔ اگر بچہ پیدا ہی مردہ حالت میں ہوا تو غسل دے کر بغیر جنازہ پڑھے ہی قبرستان میں دفن کر دیا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری