جواب:
آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل ہیں:
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.
اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔
بَنِيْ إِسْرَآئِيْل، 17: 32
مشت زنی سے متعلق اگرچہ نصوص قطعیہ وارد نہیں ہیں، تاہم آئمہ اہلِ سنت نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اسے بھی حرام ہی میں شامل کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ.
اور(کامیاب ہوگئے) وہ لوگ جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
الْمُؤْمِنُوْن، 23: 5-7
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ تمام راستوں کو حرام کر دیا ہے، جن میں مشت زنی بھی شامل ہے۔ یہ گناہِ کبیرہ ہے جو متعدد طبی و نفسیاتی مسائل کا موجب، اخلاقی گراوٹ کا سبب اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ اس کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: اسلام میں مشت زنی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا امام احمد بن حنبل نے مشت زنی کو جائز قرار دیا ہے؟
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا.
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
النساء، 4: 23
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں محرمات (جن سے نکاح حرام ہے) کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں:
نکاح سے حرمتِ مصاہرت (سسرالی رشتوں کی حرمت) ثابت ہونے میں چاروں آئمہِ اہلِ سنت کا اتفاق ہے، لیکن زناء کرنے، شہوت سے عورت کو چھونے اور شہوت سے فرج (شرمگاہ) کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت کے ثبوت میں آئمہ کا اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک کسی عورت کو شہوت سے چھونے اور اس کی شرمگاہ کو دیکھنے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: ساس کو شہوت سے چھونے سے کیا اس کی بیٹی سے نکاح برقرار رہے گا؟
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.
آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔
النُّوْر، 24: 30
اور اس سے اگلی آیت میں پردے کے احکام بیان کیے جا رہے ہیں:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
النُّوْر، 24: 31
مذکورہ بالا آیت اور اس جواب کے ابتدائی حصے میں دی گئی آیات و احکام کی رو سے غیرمحرم کو دیکھنا اور اسے بغیر نکاح کے چھونا سراسر حرام اور خداوند و متعال کے حکم کے خلاف ہے۔ ترازو لیکر گناہوں کو تولنے اور ان میں سے چھوٹا بڑا الگ کرنے کی بجائے ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چھوٹے گناہ، بڑے گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں اور بڑے گناہ دوزخ کا راستہ ہیں۔ خود کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت میں مشغول رکھیں اس سے گناہ کا جذبہ کنٹرول ہوتا ہے اور پاکدامنی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْکُمْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔
بخاری، کتاب النکاح، باب قول النبی مَنِ السْتَطَاعَ مِنْکُمْ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ
اس لیے جو نان و نفقہ اور ازداجی حقوق پورے کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے۔ اگر نکاح کی طاقت نہیں ہے تو شہوت کو ابھارنے والی چیزوں سے دور رہے، نگاہیں نیچی رکھے، لڑکیوں کے ساتھـ ملنے، ان کے ساتھـ بیٹھنے اور بات کرنے سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرے۔ اللہ تعالی ہم سب کو پاکدامنی نصیب کرے، اور جنسی خواہشات کے گڑھے میں گرنے سے، اور فتنوں سے بچائے۔ آمین
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔