جواب:
تمام آئمہ فقہ‘ اسلام کے بنیادی عقائد، داعیات، ضروریات اور اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر متفق ہیں۔ سب کے نزدیک احکامِ شرعیہ کا بنیادی ماخذ قرآن و سنت ہے، اختلاف احکام کی تعبیر و تشریح میں ہے۔ تمام آئمہ فقہ جب کسی جزوی مسئلے کی تحقیق میں اختلاف کرتے ہیں تو دوسرے کو دین سے خارج قرار نہیں دیتا ہے، بلکہ جماعت المسلمین پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ دونوں آراء میں سے جس کو چاہیں قبول کر لیں۔ یہ اختلاف‘ فروعی اختلاف کہلاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، کبھی یہ اختلاف قرآن کریم کی قراتوں کے مختلف ہونے پر ہوتا ہے، کبھی حدیث نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، کبھی دلائل میں تعارض کے وقت ترجیح میں اختلاف کی بنا پر ہوتا ہے، اور کبھی نص کے فہم اور اس کی تفسیر میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذیل میں آئمہ فقہ کے علمی اختلاف کی چند ایک وجوہات اور مثالیں بیان کی جا رہی ہیں:
فقہائے کرام کے درمیان فروعی مسائل میں اختلاف کی ایک وجہ قرآن کی قراتوں کا مختلف ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال وضو میں پاؤں دھونے اور پاؤں پر مسح کرنے کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ.
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔
الْمَآئِدَة، 5: 6
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لفظ أَرْجُلَكُمْ میں لام پر زبر پڑھنے کی قرات مشہور ہے، لام پر زبر پڑھنے سے أَرْجُلَ (پاؤں) كا عطف وُجُوهَ (چہرے) پر ہو گا اور چہرہ دھونے کا حکم ہے تو پاؤں بھى دھوئے جائيں گے۔ لیکن ایک قرات میں اسے أَرْجُلِكُمْ بھی پڑھا گیا ہے یعنی لام پر زير كے ساتھ، لام پر زیر پڑھنے سے أَرْجُلِ (پاؤں) كا عطف ِرُؤُوسِ (سر) پر ہو گا اور چونکہ سر کے مسح کا حکم ہے تو پاؤں پر بھی مسح کیا جائے گا۔ اس طرح قراتوں کے اختلاف کی وجہ سے احکام کی تعبیر میں اختلاف ہوا۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہر وقت موجود نہیں ہوتے تھے۔ بعض کی فقط ایک ہی ملاقات ہوئی، بعض کو سفر میں آپ کی قربت نصیب ہوئی بعض نے بہت کم وقت آپ کے ساتھ گزارا بعد میں کسی دوسرے علاقے میں چلے گئے اور ملاقات کا موقع میسر نہ آیا۔ اس طرح تمام صحابہ کرام حالات و واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے یکساں علم کے حامل نہیں تھے۔ جسے جتنا علم ہوا اس نے آگے پہنچا دیا، بعد میں اگر کوئی حکم تبدیل یا منسوخ ہوا تو ذرائع ابلاغ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے خبر نہ ہو سکی۔ یہ کیفیت تابعین کے دور میں بھی پیش آئی جو آئمہ فقہ میں اختلاف کا سبب بنی۔
آئمہ فقہ کے سامنے جب کوئی حدیث بیان کی جاتی تو اس کی جرح و تعدیل کرتے اور راوی سے اس کا ثبوت طلب کرتے۔ اگر حدیث کا ثبوت مل جاتا تو اس پر عمل کرتے ورنہ موقف اختیار کرتے یا جو دلیل راجح ہوتی اس کو معمول بنا لیتے۔ ایک حدیث‘ ہوسکتا کسی امام کی تحقیق کے مطابق ثابت ہو اور دوسرے کی تحقیق میں پایہ ثبوت کو نہ پہنچے۔ یوں روایات کے ثبوت میں اختلاف بھی آئمہ کے درمیان اختلاف کا سبب بنا۔
بعض اوقات کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود کسی حکم کے مفہوم، مزاج اور روح کو سمجھنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جو امام جس مفہوم کو مقاصدِ شریعت سے زیادہ قریب پاتا ہے اسی کو اختیار کر لیتا ہے۔
معنیٰ پر دلالت کے اعتبار سے عربی میں لفظ کی متعدد اقسام ہیں۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن میں ایک سے زیادہ معنیٰ پائے جاتے ہیں، جیسے: لفظ ’عین‘ عربی میں آنکھ، ہر موجود چیز، کسی پسندیدہ چیز، سونا اور لڑکی سمیت متعدد معنیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’قرء‘ طہر اور حیض دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے الفاظ میں اشتراکِ معنیٰ بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب ہے۔
اختلاف کا ایک سبب دلائل کا ظاہری تعارض بھی ہے۔ کیونکہ نصوص پر بےشمار عوامل اثرا انداز ہوتے ہیں اس لیے ان میں تعارض پیدا ہو جاتا ہے۔ جب مجتہد کو کوئی ایسی دلیل مل جاتی ہے جس سے وہ ایک نص کو دوسری پر ترجیح دے سکتا ہو تو وہ کسی ایک کو ترجیح دے دیتا ہے۔
کتاب و سنت کے منصوص احکام محدود ہیں اور مسائل بےشمار ہیں۔ جب کسی مسئلے کے بارے میں کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی صریح حکم موجود نہ ہو تو یہ بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر مجتہد اخلاصِ نیت کے ساتھ اجتہاد کرتا ہے جس میں اختلاف ہونا فطری بات ہے۔
قواعدِ فقیہ ایسے اصول ہیں جنہیں مسائل کے استنباط کے وقت ایک مجتہد مدِنظر رکھتا ہے۔ جب امام یا مجتہد کوئی مسئلہ مستنبط کرتا ہے تو اس کا یہ استنباط انہی قواعد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان اصولی قواعد کا اختلاف بھی فروعات میں اختلاف کا سبب بنتا ہے۔
آئمہ فقہ اور مجتہدین کے درمیان اختلاف کی مذکوہ بالا چند وجوہات و اسباب ڈاکٹر مصطفیٰ سعید الخن کی کتاب ’قواعدِ اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر‘ سے لی گئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید وضاحت کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔