جواب:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ آپ نے مستقبل میں پیش آنے والی واقعات کی خبریں دی ہیں۔ انہی اخبارِ غیبیہ میں نے سے ایک امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرما دیا تھا۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ.
حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔
طبراني، المعجم الکبير، 3: 105، رقم: 2807، الموصل: مکتبة الزهراء
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ. يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ.
میری امت دین و انصاف کی قدریں قائم رہیں گی، حتیٰ کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا۔
أبو يعلی، المسند، 2: 176، رقم: 871، دمشق: دار المأمون للتراث
تاریخ، علم، نقل اور عقل اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے ہی شہید کرایا۔ واقعہ کربلا کوئی اچانک پیش آنے والا حادثہ نہیں تھا۔ ملوکیت کی سوچ کو پروان چڑھانے اور دین کی اقدار کو پامال کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کی گئی تھی، جس میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اقتدار کے حصول کے لیے خون بہانے سے بھی دریغ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حاکم کی نگاہ میں کھٹکنے والے چند افراد میں امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اسی سوچ نے واقعہ کربلا کی بربریت کو جنم دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ بیتِ رسول کے دشمن اور یزید کے حامی روزِ اوّل ہی سے یزید کو معصوم ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتے رہے ہیں۔ وہ اہلِ بیت کے خونِ ناحق کا بدنما دھبہ یزید کے دامن سے دھونا چاہتے ہیں۔ اس لیے کبھی وہ واقعہ کربلا کی روایت کو مشکوک بناتے ہیں اور کبھی امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کا الزام ان کا ذکر کرنے والوں پر دھرتے ہیں۔ مگر یہ کوششیں نہ کبھی پہلے بارآور ہوئی ہیں اور نہ ہی اب ان سے کسی فائدے کی امید ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔