جواب:
شرعِ متین کا اصول یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد بلاعذر قبر کو کھولنا اور اس جگہ سے میت کو نکالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ جگہ اس کے لئے خاص ہوجاتی ہے۔ اگر ضرورت درپیش ہو یا ایسی مصلحت سامنے آجائے جو علماء کے مطابق راجح ہو تو قبر کھولنا اور میت کو نکالنا جائز ہے۔
عبدالرحمان الجزیری قبر کھولنے کے مسئلہ پر فقہائے اسلام کا مؤقف بیان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
يحرم نبش القبر مادام يظن بقاء شئي من عظام الميت فيه، ويستثنیٰ من ذالک الامور: منها ان يکون الميت قد کفن بمغصوب، و ابي صاحبه ان ياخذ القيمة، منها ان يکون قد دفن ارض مغصوبة ولم يرص مالکها ببقائه، و منها ان يدفن معه مال بقصد او بغير قصد سواء کان هٰذا المال له او غيره، وسواء کان کثيراً او قليلاً و لو درهماً، سواء تغيرالميت او لا، وهٰذا متفق عليه، الا عند المالکيه.
اگر گمان ہو کہ میت کا کوئی ہڈی (یا کوئی بھی عضو) باقی ہے تو اس کی قبر کھولنا حرام ہے۔ اس حرمت سے چند باتیں مستثنیٰ ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ میت کو ہتھیائی ہوئی زمین پر دفن کیا جائے اور مالک زمین کی قیمت لینے سے انکار کر دے یا جس زمین کو غصب کر کے میت دفنائی گئی ہے اس زمین کا مالک وہاں دفنانے پر راضی نہ ہو(تو قبر کھول کر میت کو منتقل کیا جائے گا)، اور اگر جان بوجھ کر یا بےخبری میں میت کے ساتھ کچھ مال دفن ہو گیا ہے (تو ایسی صورت میں بھی قبر کو کھولنا جائز ہے) قطع نظر اس کے کہ مال میت کا تھا یا کسی دوسرے کا، زیادہ تھا یا کم‘ بھلے ایک درہم ہی کیوں نہ ہو، لاش سلامت ہو یا خراب ہو (بہرحال قبر کھول کر مال نکالا جائے گا)۔
الجزيری، عبدالرحمان، الفقه علیٰ مذاهب الاربعة، 1: 537، دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان
صورتِ مسؤلہ اگر قبر بیٹھ جائے تو بہتر یہی ہے کہ قبر کھولے بغیر اس کو درست کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر قبر کھولنا ناگزیر ہو تو کوئی ایسا انتظام کیا جائے اس سے میت کا ستر باقی رہے۔ کیونکہ میت کا ستر رکھنا بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح زندہ کا ہے۔
بہرحال اصول یہی ہے کہ بلاعذرِ شرعی قبر کھولنا یا میت کو نکالنا جائز نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔