جواب:
کسی عمل کی فضیلت کا دار ومدار مقدارِ قرات کی کمی بیشی پر ہرگز نہیں ہے، فضیلت تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی بجا آوری میں پنہاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تلاوتِ کلامِ باری تعالیٰ کے ایک ایک حرف کے بدلے میں دس دس نیکیاں ملتی ہیں لیکن کوئی شخص چوبیس گھنٹے تلاوتِ قرآنِ مجید تو کرتا رہے مگر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بیوی بچوں کے حقوق اور دیگر فرائض سے کنارہ کش رہے تو اس کا یہ عمل باعث فضیلت نہیں ہو گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے خالی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اﷲِط وَکَفٰی بِاﷲِ عَلِيْمًاo
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ یہ فضل (خاص) اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ جاننے والا کافی ہے۔‘‘
النساء، 4: 69، 70
فرض میں شارع کی طرف سے فعل کے بجا لانے کا لازمی مطالبہ پایا جاتا ہے اسی لئے اس کے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر عذاب ہوتا ہے اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے جبکہ سنن کے لیے شارع کا لازمی مطالبہ نہیں پایا جاتا، کرنے پر اجر و ثواب اور چھوڑنے پر ملامت کی جاتی ہےو اور نوافل کا شارع کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں ہے، عمل کرنا باعث اجر و ثواب ہے، چھوڑنے پر اساءت یا کراہت نہیں ہے۔ علماء کرام نے فرض کی درج ذیل تعریفات بیان کی ہیں:
والفرائض في الشرع مقدرة لا تحتمل زيادة ولا نقصان، أي مقطوعة ثبتت بدليل لا شبهة فيه مثل الإيمان والصلاة والزکاة والحج وسميت مکتوبة.
’’فرائض، شریعت میں مقرر ہیں جن میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی یعنی قطعی ہوتے ہیں اور ایسی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں جس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی جیسے ایمان، نماز، زکوٰۃ اور حج، ان کو فرض کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘
علي بن محمد البزدوي، الأصول، 1: 136، کراتشي، باکستان: مطبعة جاويد بريس
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ فرض کی یہی تعریف امیر الجاج نے التقریر و التحبیر، امام بخاری نے کشف الاسرار اور محلی نے جمع الجوامع میں بیان کی ہے۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی فرض کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هو ما طلب الشرع فعله طلباً جازماً بدليل قطعي لا شبهة فيه.
’’شریعت میں جس فعل کے کرنے کا لازمی مطالبہ کیا جائے اور وہ دلیل قطعی سے اس طرح ثابت ہو کہ اس میں کسی قسم کا شبہ نہ رہے، فرض کہلاتا ہے۔‘‘
وهبه زحيلي، الفقه الإسلامي وأدلته، 1: 51، دمشق، شام: دار الفکر
لہٰذا فرائض کے بجا لانے کا ہر مکلف سے مطالبہ کیا جاتا ہے جو عمل نہ کرے وہ مستحقِ عذاب ہوتا ہے، اس لئے شارع نے فرائض کی فضیلت بھی باقی اعمال سے زیادہ رکھی ہے۔ جیسے نماز قائم کرنے کے بارے میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بار بار حکم ارشاد فرمایا ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکوٰةَ ط
’’اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو۔‘‘
البقرة، 2: 110
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود نماز ادا فرما کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے طریقہ بھی بتا دیا اور نمازوں کی اہمیت کو بھی اجاگر فرمایا ہے:
صَلُّوا کَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي.
’’جیسے تم مجھے (نماز) پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ کا مطالبہ مقررہ اوقات میں کیا ہے:
اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
النساء، 4: 103
لہٰذا فرض نمازوں کو ان کے مقررہ اوقات میں ہی ادا کرنا جتنا مشقت طلب ہے اتنا ہی افضل بھی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابو عمرو شیبانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے اس گھر والے نے حدیث بیان کی اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا:
أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اﷲِ؟ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَی وَقْتِهَا. قُلَتُ ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ. قُلَتُ ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اﷲِ. قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
’’اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا کہ پھر کونسا؟ فرمایا: پھر والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ انہوں نے فرمایا: میں نے یہی باتیں پوچھیں، مزید پوچھتا تو اور مزید بتایا جاتا۔‘‘
قرآن وحدیث میں فرض نمازوں کے فضائل بیان کئے گئے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ کُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَاتَقُولُ ذَلِکَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالَ فَذَلِکَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اﷲُ بِهَا الْخَطَايَا.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سوچو تو سہی اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ دفعہ نہائے تو کیا کہتے ہو کہ اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ ذرا بھی میل باقی نہیں رہے گا۔ فرمایا کہ یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
نماز پنجگانہ اور بالخصوص نماز عصر کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا ِﷲِ قٰـنِتِيْنَo
’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔‘‘
البقرة، 2: 238
حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ ابو الملیح نے فرمایا: ہم ایک غزوہ میں حضرت بُرَیدہ کے ساتھ تھے، ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے تو اُنہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی کریم نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ.
’’جس نے نماز عصر ترک کر دی اس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔‘‘
نماز فجر اور عشاء کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔ حضرت ابو بکر بن ابو موسیٰ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
مَنْ صَلَّی الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ.
’’جس نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘
حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے:
لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّی قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا يَعْنِي الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ الرَّجُلُ وَأَنَا أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي.
’’جس شخص نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے یعنی فجر اور عصر پڑھی وہ ہر گز دوزخ میں نہیں جائے گا۔ بصرہ کے ایک شخص نے ان سے پوچھا کیا تم نے یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنی ہے؟ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں! اس شخص نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے۔ میرے کانوں نے اس کو سنا اور دل نے یاد رکھا۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے معلوم ہوا کہ فرائض کو فضیلت اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے۔ ہم اپنے خیالات کی بنیاد پر سنن ونوافل کو فرائض پر فضیلت نہیں دے سکتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔