جواب:
جواب: فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَكَذَلِكَ إنْ أَرَادَ بَعْضُهُمْ الْعَقِيقَةَ عَنْ وَلَدٍ وُلِدَ لَهُ مِنْ قَبْلُ.
’’اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد پہلے پیدا ہونیوالی اولاد کے عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔‘‘
لہٰذا اگر ایک بڑے جانور میں کچھ لوگ قربانی کے حصے ڈالیں اور کچھ عقیقہ کے تو جائز ہے یعنی بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا۔
اہل حدیث مسلک کے عالم دین، فتاوی ستاریہ میں لکھتے ہیں:
’’ایک گائے شرعاً سات بکریوں کے قائم مقام ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک گائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی یا صرف سات لڑکیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔‘‘
فتاوی ستاريه، 3: 3
گائے سات بکریوں کے قائم مقام ہے۔ سات لڑکیوں یا دو لڑکوں اور تین لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ ہو سکتا ہے۔
لہٰذا بڑے جانور، گائے، بھینس یا اونٹ میں عقیقہ کے قربانی کی طرح سات حصے ہوں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔