جواب:
جی ہاں! نماز میں شریعتِ اسلامیہ کی تمام فرض عبادتیں جمع کر دی گئی ہیں اور ان کی سب کیفیات اس میں اس طرح سمو دی گئی ہیں کہ ہر ایک کا رنگ اس میں جھلکتا ہوا نظر آتا ہے مثلاً :
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے ممانعت ہے جبکہ نماز میں بھی بندہ ان امور سے دست کشا ہوتا ہے۔ صرف ایک فرق ضرور ہے کہ روزے میں بے نیازی اور شان استغناء جھلکتی ہے جو ایک خدائی صفت کا پرتو ہے اور نماز سر تا پا نیازمندی اور عجزو فروتنی کا آئینہ دار ہے۔
ارکان اسلام میں زکوٰۃ انسان کو مال و دولت کی ہوس اور حب زر سے پاک کر کے اس کے اندر تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں بندے کا اللہ تعالیٰ سے محبت و وابستگی کا قلبی تعلق استوار ہوتا ہے۔ جبکہ نماز کی حالت میں اس سے بدرجہ اولیٰ انسان خدا کی ذات کو اپنی الفت و محبت کا محور و مرکز بنا لیتا ہے اور اس کے دل میں غیر اﷲ کا ہر خیال یکسر نکل جاتا ہے۔
حج میں شعائر اﷲ کی تعظیم، اہل و عیال کی محبت اور دنیوی مشاغل سے کنارہ کشی اور ترکِ وطن کا سبق ملتا ہے تو نماز میں بھی استقبالِ قبلہ، کعبۃ اﷲ کی تعظیم اور مکروہاتِ دنیا سے کنارہ کشی کا رنگ نمایاں ہے۔ نماز کے کئی افعال حج کی مماثل ہیں جیسے حج میں دورانِ طواف رفع یدین کیا جاتا ہے تونمازمیں بھی داخل ہونے کے لیے رفع یدین کرنا پڑتا ہے، اسی طرح حج کی طرح نماز بھی متعدد اوراد، اذکار اور وظائف کا مجموعہ ہے۔
پس نماز کے علاوہ جتنی عبادات ہیں ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ہر عبادت محض اس لیے عبادت قرار پائی ہے کہ اس میں حکم خداوندی کی تکمیل کا پہلو مضمر ہے لیکن نماز کا امتیازی اور منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ فی نفسہ عبادت ہے اور اس میں خدا کی عظمت و کبریائی کے آگے بندے کی بے مائیگی بے وقعتی اور تذلیل کا جو احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے وہ کسی اور عبادت میں نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔