جواب:
اسلامی قوانین کے مطابق زنا سے مراد ایسی مُجامَعَت یا مُباشَرَت ہے جو اپنے وقوع میں غیرقانونی ہو۔ گویا ایسا عمل جس میں مرد کے ذَکر کا، عورت کی فرج یا اَنْدامِ نِہانی میں بغیر نکاح یا ازدواج کے ادخال ہو، زنا کہلاتا ہے۔ اسلام نے زنا میں دونوں مفاہیم کو شامل کیا ہے: ایک قبل ازدواج جماع جو کہ نکاح (شادی) سے پہلے یا غیر شادی شدہ افراد کے مابین ہو اور دوسرا بیرون ازدواج جماع جو کہ اپنے غیرمنکوحہ (مرد یا عورت) سے کیا جائے۔ گو کہ دونوں صورتوں میں ایسا جماع جرم اور گناہ ہی ہے لیکن دونوں صورتوں کی سزائیں مختلف ہیں۔
زنا بالرضاء اور زنا بالجبر باعتبارِ کیفیت و نتائج دو مختلف جرم ہیں، اس لیے شریعت اسلامیہ نے ان دونوں جرائم میں فرق کیا ہے۔ زنا بالرضاء میں دونوں فریق مستحق سزا ہوں گے۔اگر زانی جوڑا شادی شدہ (محصن/محصنہ) ہے تو جرم کے ثابت ہونے پر دونوں کو سنگسار کیا جائے گا، اگر دونوں میں سے ایک شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے گا۔ اگر دونوں غیرمحصن (غیرشادی شدہ) ہیں توسورۂ نور کی آیت نمبر 6 حکم کے مطابق ان کو سو کوڑے مارے جائیں گے، دونوں میں سے کوئی ایک غیرشادی شدہ ہے تو اسے یہ سزا دی جائے گی۔
اس کے برعکس زنابالجبر میں مجبور پر کوئی حد نہیں۔ امام ترمذی نے السنن میں روایت کیا ہے کہ
استکرهت امرأة علیٰ عهد رسول اﷲ صلی الله عليه و آليه وسلم فدرء رسول اﷲ صلی الله عليه و آليه وسلم عنها الحد و اقامه علی الذی اصابها.
سنن الترمذی، ابواب الحدود،باب ماجآء فی المرأة اذا استکرهت علی الزنا.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے عہد میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا تھا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اس عورت پر حد قائم نہیں کیا اور اس پر حد قائم کیا جس نے اس عورت سے زنا کیا تھا۔
امام ترمذی مزید فرماتے ہیں:
والعمل علی هذا الحديث عند اهل العلم من اصحاب النبی صلی الله عليه و آليه وسلم وغيرهم ان ليس علی المستکره.
علماء صحابہ رضوان اﷲ علیہم وغیرہم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس پر حد لاگو نہیں ہوتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔