غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4002
محترم مفتی صاحب! عرض ہے کہ میرے بیٹے محمد رؤف ولد غلام یاسین کی بیوی اپنے بھائی کے ساتھ ماں کے گھر جانا چاہی تھی، لیکن میرے بیٹے نے اسے منع کیا، جس پر ان کا جھگڑا ہو گیا۔ میرے بیٹے نے کہا کہ اگر تو جائے گی تو میں تجھے طلاق دے دونگا۔ میں نے بیٹے کو سمجھایا کہ ایسا مت بولو لیکن اسکا غصہ کم نا ہوا۔ اسکی بیوی جانے لگی تو اسے مزید غصہ آیا جس پر اس نے تین مرتبہ طلاق دے دی۔ پھر اسکے 30 منٹ بعد پانی پیا اور غصہ ٹھنڈا ہوا تو پھر رونے لگا کہ میرے سے غلطی ہوگئی۔ لڑکی اپنے گھر میں ہے اور لڑکے کو ہم نے گھر سے نکال دیا ہے۔ آپ راہنمائی فرمائیں کہ اس کی طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

  • سائل: غلام یاسینمقام: لیہ
  • تاریخ اشاعت: 08 ستمبر 2016ء

زمرہ: مریض کی طلاق  |  طلاق

جواب:

اگر جھگڑے کے دوران محمد رؤف شدید غصے کی حالت میں تھا کہ غصہ اس کی عقل پر غالب آگیا اور وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا اس وقت اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اس کیفیت میں اگر اس نے طلاق دی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی، وہ پہلے کی طرح بطور میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر غصے کی شدت کم تھی تو طلاق واقع ہو گئی ہے۔ غصے کی حالت میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کے بارے میں جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:

غصے کی طلاق کا کیا حکم ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری