جواب:
پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ جب شوہر طلاق کا حق بیوی کو تفویض کر دے تو شوہر کے پاس طلاق کا حق ختم نہیں ہوتا، باقی رہتا ہے اور بیوی کے پاس بھی آ جاتا ہے۔ آپ کے بقول آپ کو طلاق کا حق تفویض کرنے کے بعد دومرتبہ آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق دی اور دو مرتبہ آپ نے اسے طلاق دی، پھر عدت کے دوران آپ رجوع بھی کرتے رہے۔ یاد رہے کہ رجوع کی گنجائش پہلی اور دوسری طلاق میں ہوتی ہے، ایک یا دو طلاق دینے کے بعد دورانِ عدت رجوع اور عدت کے بعد نکاح کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ مگر آپ کے تحریر کے مطابق آپ لوگوں نے تین بار طلاق دی ہے، جس کے بعد طلاقِ مغلظہ واقع ہوگئی ہے۔ طلاقِ مغلظہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔
البقره، 2: 230
تین طلاق دینے کے بعد میاں اور بیوی ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں، الاّیہ کہ کسی اور مرد کے ساتھ نکاح وہمبستری کے بعد خدا نخواستہ پھر وہ عورت بیوہ یا مطلقہ ہو جائے تو ایسی صورت میں اگریہ دونوں پھر باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔