جواب:
حدیثِ مبارکہ ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَائَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَي النَّبِيِّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ لَا إِنَّمَا ذٰلِکِ عِرْقٌ وَلَيْسَ بِحَيْضٍ فَإِذَا أَقْبَلَتْ حَيْضَتُکِ فَدَعِي الصَّلَاةَ وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْکِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّي قَالَ وَقَالَ أَبِي ثُمَّ تَوَضَّئِي لِکُلِّ صَلَاةٍ حَتَّي يَجِيئَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابو حُبیش نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ! میں مستحاضہ ہوں، پاک نہیں ہوتی تو کیا نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو خونِ رگ ہے، حیض تو نہیں۔ جب تمہارے حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کرو اور جب گزر جائیں تو غسل کر کے خون دھویا کرو۔ اور نماز پڑھا کرو۔ میرے والد محترم نے فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو یہاں تک کہ ایام حیض آ جائیں۔‘‘
اسی حدیثِ مبارکہ سے قیاس کرتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ جب کوئی ایسا عذر لاحق ہو جس سے چھٹکارہ پانا ممکن نہ ہو تو ہر نماز کے لیے نیا وضو کر کے نماز ادا کی جائے گی۔
لہٰذا آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کریں اور جب تک سلسلِ ریح کے علاوہ کسی اور ناقض سے وضو نہ ٹوٹے، آپ اسی نماز سے تلاوت وغیرہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن اگلی نماز کا وقت شروع ہونے پر نیا وضو کر کے نماز ادا کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔