جواب:
آپ کے دونوں سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ قَالَ قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَلَا أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ.
’’حضرت ابو الہیاج اسدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علی ابن بی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کام کے لیے مجھے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا کہ میں ہر تصویر (بت) کو مٹا دوں اور ہر اونچی قبر کو (عام قبروں کے) برابر کر دوں۔‘‘
حدیث مبارکہ میں قبریں مسمار کرنے کا ذکر نہیں ہے اونچی قبروں کو عام قبروں کے بر ابر کرنے کا ذکر ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کو بنیاد بنا کر قبریں مسمار کرنے کا تصور پیش کرنا درست نہیں ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو قبروں پر بیٹھنے والے کے لئے سخت وعید سنائی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی قبریں مسمار کرنے کا حکم صادر فرماتے؟ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُکُمْ عَلَی جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَی جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَی قَبْرٍ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص انگاروں پر بیٹھ جائے جس سے اس کے کپڑے جل جائیں اور آگ اس کی کھال تک پہنچ جائے تو یہ قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔‘‘
عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا.
’’حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز پڑھو۔‘‘
ہجرت مدینہ کے بعد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کے لئے زمین خریدی تو اس میں کچھ کھجور کے درخت اور مشرکین کی پرانی قبریں تھیں جن کو مسمار کرنے کا حکم فرمایا تھا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو مدینہ منورہ کے بالائی حصے میں اترے یعنی اس قبیلے میں جس کو بنو عمرو بن عوف کہتے ہیں۔ یہ فرماتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس چودہ روز اقامت پذیر رہے۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنونجار کے گروہ کو بلایا۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ مسلح ہوکر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر جلوہ افروز ہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سواری ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاروں طرف بنی نجار کے افراد ہیں۔ یہاں تک کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے اترگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ جہاں نماز کا وقت ہوتا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی جگہ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز ادا کرلی جاتی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا حکم فرمایا اور بنی نجار کی جماعت کو بلایا۔ جب وہ حاضر ہوگئے تو فرمایا: اے نبی نجار! تم یہ اپنا باغ مجھے بیچ دو۔ وہ عرض گزار ہوئے: خدا کی قسم، ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے مگر اللہ تعالیٰ سے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہاں کیا چیزیں تھیں: وہاں مشرکین کی قبریں تھیں، ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت تھے۔
فَأَمَرَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ قَالَ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ قَالَ جَعَلُوا يَنْقُلُونَ ذَاکَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَعَهُمْ يَقُولُونَ.
اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ
الْآخِرَةِ
فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةِ
’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں۔ ویرانے کو ہموار کروا دیا گیا اور کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے۔ پھر مسجد سے قبلہ کی جانب ایک قطار میں درختوں کی لکڑیاں رکھ دی گئیں اور دروازے کی جگہ پتھر رکھ دیئے گئے۔ تو لوگ پتھر اٹھا کر لاتے اور رجز پڑھتے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے شریک کار تھے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے: اے اللہ! خیر صرف آخرت میں ہے تو مہاجرین اور انصار کی مدد فرما۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کو احمد بن حنبل، ابو داود، امام نسائی، ابن حبان، ابن خزیمہ، امام بیہقی، ابی عوانہ، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔
لہٰذا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں کبھی بھی مسلمانوں کی قبریں مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا اور مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کو بنیاد بنا کر مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کرنا جائز نہیں ہے۔
ولد الزنا (زِنا زادَہ، زنا سے پیدا ہونے والا بچہ) پر اس کے والدین کے عمل کا گناہ نہیں، کیونکہ جرم اس نے نہیں‘ اس کے والدین نے کیا ہے۔ قدرت کا اصول یہ ہے کہ ایک انسان کے جرم کی سزا دوسرے انسان کو نہیں دی جاسکتی، تو والدین کے گناہ کا وبال اولاد پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
قُلْ اَغَيْرَ اﷲِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ کُلِّ شَيْئٍ ط وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَا ج وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo
’’فرما دیجیے: کیا میں اﷲ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالاں کہ وہی ہر شے کا پروردگار ہے، اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘
الانعام، 6: 164
ولد الزنا کا معاملہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرے اور اعمال صالحہ بجا لائے تو یقیناً جنت اور کامیابی حقدار ہے۔ ولد زنا حرام عمل سے پیدا ضرور ہوتا ہے لیکن وہ خود حرام نہیں ہوتا اس کا نسب حرام ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔‘‘
لہٰذا ولد زنا اگر اچھے اعمال کرے گا تو اس کو اجر و ثواب ملے گا اور وہ جنت میں بھی جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔