جواب:
اگر جھگڑے کے دوران مذکورہ شخص اس قدر غصے میں تھا کہ اسے اپنے وجود اور الفاظ پر قابو نہیں رہا تو ایسے صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں بطور میاں بیوی کے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ غصے کی طلاق کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: غصّے کی کون سی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی؟
دوسری صورت یہ ہے کہ مذکورہ شخص نے عام حالت میں بقائم ہوش و حواس تین طلاقیں دی ہیں تو وہ تین ہی شمار ہوں گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی طلاق ثلاثہ کو تین طلاقیں ہی مانا جاتا تھا۔ اس کی وضاحت کے لیے حدیثِ رکانہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ حدیث پاک درج ذیل ہے:
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ أَنَّ رُکَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَلِکَ وَقَالَ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاﷲِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رُکَانَةُ وَاﷲِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
’’نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی تو حضرت رکانہ بن عبد یزید نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ارادہ نہیں کیا مگر ایک کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ ایک ہی کا ارادہ کیا تھا؟ حضرت رکانہ نے کہا : خدا کی قسم، میں نے ایک کا ہی ارادہ کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی بیوی ان کی طرف لوٹا دی۔ پھر انہوں نے دوسری طلاق حضرت عمر کے زمانے میں اور تیسری حضرت عثمان کے زمانے میں دی‘‘۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے تین بار طلاق دینے پر حلفاً یہ کیوں دریافت کیا کہ ان کی نیت ایک کی تھی؟ اگر تین بار طلاق دینے سے مراد ایک ہی طلاق ہوتی تو پھر یہ سوال نہیں بنتا تھا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ صورت حال کچھ مختلف ہے۔ جو درج ذیل ہے:
مذکورہ بالا دونوں صورتوں کو سمجھنے کے لیے ایک مثال درج ذیل ہے:
اب انہی دونوں صورتوں کو طلاق کے معاملہ میں دیکھیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں دیکھ لیں طلاق دے رہا ہوں، طلاق ہے یا کہہ دے طلاق، طلاق، طلاق تو جب اس سے پوچھا جائے وہ کہے کہ میں نے ایک طلاق دی ہے لیکن تاکید کے لیے اس تو تین بار بولا ہے تو یہ بات عقل تسلیم بھی کرتی ہے۔
دوسری صورت اگر کوئی شخص کہے میں تمہیں تین طلاقیں دے رہا ہوں پھر کہے مراد ایک ہی ہے۔ یہ تخصیص ہے، اس کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ایک شخص جس کے ہوش وحواس قائم ہوں اور وہ دو، تین یا زیادہ کو ایک ہی شمار کرے۔
لہذا آج بھی اگر کوئی تاکید کے لیے بار بار لفظ طلاق بولے تو اس سے حلف لیا جائے گا کہ آپ کی اس سے مراد کیا تھی اگر وہ کہے کہ میری مراد ایک طلاق تھی تو اس کو ایک شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن جو نارمل حالت میں ایک، دو یا تین طلاق بول کر تخصیص کر دے تو جتنی طلاقیں دے گا ہو جائیں گی۔ جو تین طلاقیں نارمل حالت میں دے دے اس کے لیے وضاحت درج ذیل ہے۔
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.
’’طلاق (رجعی) ایک یا دو مرتبہ ہے پھر بھلائی سے روک لو یا حسن سلوک سے چھوڑ دو‘‘۔
البقرة، 2 : 229
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
’’پھر اگر تیسری طلاق (بھی) دیدے تو یہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کسی اور خاوند سے نکاح و قربت نہ کر لے‘‘۔
البقرة، 2 : 230
قرآن مجید نے’’الطلاق مرتان‘‘ فرمایا ہے یعنی دو مرتبہ طلاق دی جائے اور اس کے بعد فوراً اگر تیسری طلاق دیدی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی، اس سے واضح ہو گیا کہ کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔
طلاق ثلاثہ کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے :
عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی الله عليه وآله وسلم أتحل للأول قال لا حتی يذوق عسيلتها کما ذاق الأول.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس عورت نے کہیں اور شادی کر لی۔ اس نے بھی طلاق دیدی پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آیا یہ عورت پہلے خاوند پر حلال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرے خاوند کی طرح اس کی مٹھاس نہ چکھ لے‘‘۔
عن سالم عن ابن عمر قال : من طلَّق امرأَته ثلاثاً، طلِّقت، و عصی ربه.
’’حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں وہ واقع ہو جائیں گی اور اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی‘‘۔
ایک شخص نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے پوچھا :
اِنی طلقت امرأتی مائة تطليقة فماذا تری علی فقال له بن عباس طلقت منک لثلاث و سبع و تسعون اتخذت بها آيات اﷲ هزوا.
’’میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدی ہیں، آپ کے خیال میں مجھ پر کیا لازم ہے؟حضرت عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : تیری طرف سے اسے تین طلاقیں ہوگئیں اور ستانوے سے تو نے اﷲ کی آیتوں کا مذاق اڑایا‘‘۔
امام مالک، المتوفی 179ه، موطا، 2 : 550، رقم : 1146، دار اِحياء التراث العربی مصر
جاء رجل اِلی عبد اﷲ فقال اِنی طلقت امرأتی مائة قال بانت منک بثلاث و سائرهن معصية.
ایک شخص حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدی ہیں انہوں نے فرمایا : تین طلاقوں سے تیری بیوی تم پر حرام (جدا، بائن) ہوگئی اور باقی گناہ‘‘۔
جاء رجل اِلی ابن عباس فقال طلقت امرأتی ألفا فقال بن عباس ثلاث تحرمها عليک و بقيتها عليک وزرا اتخذت آيات اﷲ هزوا.
’’ایک شخص نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس آ کر کہا میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدی ہیں، ابن عباس رضی اﷲ عنہمانے فرمایا : تین نے تجھ پر اسے حرام کر دیا اور بقایا تجھ پر بوجھ و گناہ، تو نے اﷲ کی آیتوں کا مذاق اڑایا ہے‘‘۔
جاء رجل اِلی علی رضی اﷲ عنه فقال طلقت امرأتی ألفا قال ثلاث تحرمها عليک واقسم سائرها بين نسائک.
’’ایک شخص حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدی ہیں، حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : تین نے اس کو تجھ پر حرام کر دیا اور باقی اپنی بیویوں میں تقسیم کر لے‘‘۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں :
فاذا طلق الرجل زوجته ثلاثا دفعة واحدة، بأن قال لها : أنت طالق ثلاثا لزمه ما نطق به من العدد فی المذاهب الأربعة، وهو رأی الجمهور.
’’جب کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی بار تین طلاقیں دیں، یوں کہ تجھے تین طلاقیں، چاروں مذاہب میں اس کے کہنے کے مطابق تین واقع ہو گئیں، یہی جمہور کی رائے ہے‘‘۔
عبد الرحمٰن الجزيري، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة، 4 : 341، دار احياء التراث العربي بيروت. لبنان
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہو کہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دی جائیں تو اس سے مراد تین ہی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔