جواب:
اگر کسی شخص کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور دھمکی دینے والا مارنے پر قادر بھی ہے یا اس پر ناقابلِ برداشت تشدد کیا گیا، تو ایسی صورت میں لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بیوی کا کیس سے ڈرانا اور بےعزت کرنے کی دھمکی لگانا جبر و اکراہ کی وہ صورت نہیں جس میں دی جانے والی طلاق واقع نہ ہو۔
بہرحال آپ کے بقول آپ نے طلاق نامہ لکھا، لکھوایا اور نہ ہی پڑھا لیکن اس پر آپ نے دستخط کیے اور دستخط کرتے ہوئے آپ کے علم میں تھا کہ جس کاغذ پر آپ دستخط کر رہے ہیں وہ طلاق نامہ ہے۔ اس لیے ایک طلاق واقع ہوگئی ہے۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں :
کل کتاب لم يکتبه بخطه ولم يمله بنفسه لايقع الطلاق مالم يقرّ أنّه کتابه.
’’ہر تحریر جو خاوند نے نہ اپنے ہاتھ سے لکھی، نہ خود لکھوائی، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی جب تک اقرار نہ کرے کہ یہ تحریراسی کی ہے۔‘‘
اگر آپ مذکورہ کاغذ پر دستخط نہ کرتے تو طلاق واقع نہ ہوتی۔جب آپ سے کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ کے علم میں تھا کہ جس کاغذ پر مَیں دستخط کر رہا ہوں دراصل یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ نے جبر و اکرہ کی جو صورت بتائی ہے یہ بھی ایسی نہیں جس میں طلاق کے وقوع میں کوئی رکاوٹ ہو۔ لہٰذا آپ کے دستخط کرنے سے ایک طلاق واقع ہوگئی ہے۔ عدت کے ایام میں رجوع کر سکتے ہیں، اگر عدت گزر گئی ہے تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔