جواب:
ہر چمکدار چیز موتی اور ہر سرخ دھات سونا نہیں ہوتی، فی زمانہ شیطانی کاوشوں سے نت نئے فتنے جنم لیتے ہیں اور فتنہ پرور اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ وہ اسلامی احکام سے انکار کا برملا اظہار کر کے شیطانی فلسفے پھیلا سکیں۔ وہ منافقت اور شدید عوامی رد عمل کے خوف سے کہیں نہ کہیں سے تنکوں کا سہارا لے کر اس پر ’’اسلامی حکم‘‘ کا لیبل لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو تباہ کرتے ہیں۔ نکاح کی یہ اصطلاح نہ جانے کہاں سے ڈھونڈھ کر لائی گئی ہے، ہمارے علم میں تو نہیں۔ اسلام میں نکاح عورت و مرد میں ایک پختہ شریفانہ عمرانی معاہدہ ہے۔ جس کی درج ذیل تعریف ابو منصور محمد بن احمد الازہری نے کی ہے اور اس کو محمد بن مکرم بن منظور الافریقی، یحییٰ بن شرف نووی ابوزکریا، تقی الدین ابو بکر محمد بن الحسنیی الحصینی الدمشقی الشافعی اور امام بدر الدین محمود بن احمد العینی نے نقل کیا ہے:
أصل النکاح في کلام العرب الوطيء وقيل للتزوج نکاح لأنه سبب للوطيء المباح.
’’کلام عرب میں نکاح کا مطلب ’’وطی‘‘ یعنی عمل ازدواج ہے تزوج یعنی شادی کو بھی نکاح اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عمل ازدواج کا سبب ہے۔‘‘
علامہ شمس الدین سرخسی فرماتے ہیں:
النکاح في اللغة عبارة عن الوطيء تقول العرب تناکحت العري أي تناتجت.
’’عربی زبان میں نکاح کا مطلب قربت کرنا ہے۔ عرب کہتے ہیں خالی گود والی نے بچے کو جنم دیا‘‘۔
سرخسي، المبسوط، 4: 192، بيروت: دار المعرفة
زین الدین ابن نجیم حنفی، علی بن محمد علی الجرجانی، شیخ نظام اور ان کے ساتھی فرماتے ہیں:
هو عقد يرد علی ملک المتعة قصداً.
’’شرع میں نکاح ایسے عقد کو کہتے ہیں جو قصدا ملک متعہ یعنی نفع اٹھانے پر وارد ہوتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس، تسکین اور حقوق کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
هُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ط
’’وہ عورتیں تمہارا لباس اور تم مرد ان کا لباس ہو۔‘‘
البقرة، 2: 187
وَمِنْ اٰيٰـتِهِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَo
’’اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
الروم، 30: 21
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ط وَاﷲُ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
البقرة، 2: 228
حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حقوق پورے کرنے کی خاطر حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نفلی روزوں اور قیام اللیل میں کمی کرنے حکم فرمایا جیسا کہ متفق علیہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ ان سے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اﷲ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو قیام کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا: یا رسول اﷲ! یہی بات ہے۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَلَا تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.
’’ایسا نہ کرو بلکہ ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے روز چھوڑ دو، قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔‘‘
شارع علیہ السلام نے نکاح کو شرمگاہ کی حفاظت قرار دیا ہے:
عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ رضی الله تعالیٰ عنه فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَهَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
’’حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کر سکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو کنٹرول کرتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نکاح اسلامی تو زوجین کو حلال طریقے سے ازدواجی رشتے میں منسلک کرتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے کا پابند کرتا ہے جبکہ نکاح مسیار میں دونوں ایک دوسرے کے حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مالدار لڑکی نکاح کرے تو نان ونفقہ اور سکنیٰ سے دستبردار ہو جائے لیکن حق زوجیت سے کیوں دستبردار ہو؟ ایک مرد تو دوسری شادی کے ذریعے بھی اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے جبکہ عورت تو نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی نہیں کر سکتی۔ اگر وہ اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہونا چاہتی ہے تو نکاح کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ چونکہ نکاح مسیار، قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی مخالفت ہے، اس لیے ہمارے نزدیک یہ نام اور کام دونوں ہی شرعی اصول کے خلاف ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔