جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
اگر مورث کی اولاد موجود ہو تو اس کی بیوی کو خاوند کے ترکہ سے آٹھواں (1/8) حصہ ملتا ہے۔ مسئلہ ہٰذا میں چونکہ بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہیں ہے اس لیے بیوی کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ اولاد میں تقسیم کیا جائے گا۔ اور اس کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہوگی:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اس کی بیوی اور اولاد میں وارثت کی تقسیم یہ ہونی چاہیے تھی کہ بیوی کو کل قابلِ تقسیم ترکہ کا آٹھواں (1/8) حصہ اور باقی بچنے ترکہ کے تین (3) برابر حصے کر کے بنا کر دو (2) حصے بیٹے کو اور ایک (1) حصہ بیٹی کو ملنا چاہیے تھا۔
اسی طرح جب یہ بیوہ فوت ہوئی تو اس وقت اس کے ورثاء میں ایک بیٹا اور بیٹی تھے ۔ وقتِ وفات جو کچھ بھی مرحومہ کے نام تھا وہ بیٹے اور بیٹی میں مذکورہ نسبت سے تقسیم ہونا تھا جو کہ انہوں نے تقسیم نہیں کیا۔ اب اگر بیٹی کی اولاد اپنے حصے کا مطالبہ کر رہی ہے تو ان کا مطالبہ درست ہے۔ شرعاً ان کی والدہ کا حصہ انہیں نہیں دیا گیا تو انہیں ان کا حق ملنا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔