السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
عفیفہ ایک مطلقہ خاتون ہے اور چار بچوں کی ماں ہے، دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ عفیفہ نےچاروں بچوں کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور بھرپور طریقے سے بچوں کی پرورش و نگہداشت کر رہی ہے۔ کرائے کے مکان میں رہائش پزیر ہے۔ عفیفہ نے اپنے سابق شوہر سے طلاق کے بعد عدالت سے رجوع کیا اور بذریعہ عدالت بچوں کاخرچ اس سے لے نے میں کامیاب ہوئی۔ بچوں کا والد صاحب حیثیت ہے۔
عفیفہ کا کوئی کفیل نہیں ہے، والدین انتقال کرچکے ہیں، ایک بھائی بیرون ملک اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکونت پزیر ہے۔ وہ چند شرائط کے ساتھ بچوں کا خرچ وصول کرتی ہے، جیسے وہ علاقہ نہیں چھوڑے گی، دوسرا نکاح نہیں کرے گی ورنہ اس کا سابق شوہر بچے واپس لینے کا مجاز ہوگا۔
عفیفہ بچوں کو کسی صورت بھی خود سے الگ نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بچوں کو چھوڑ نے کی صورت میں ان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بچے بھی آپنے والد سے خوش نہیں۔ بچوں کا والد اور عفیفہ کا سابقہ شوہر کام کے سلسلے میں کبھی پاکستان اور کبھی دبئی مسافر رہتا ہے اور بچوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ اچھا نہیں ہے۔
اب عفیفہ خاموشی سے اپنے ایک رشتہ دار سے دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے، مگر اس کا اظہار کسی پر بھی نہیں کرنا چاہتی۔ یہ رشتہ دار بھی پہلے سے شادی شدہ ہے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یورپ میں مقیم ہے۔
عفیفہ اس بات پر خوش ہے کہ اسے ایک محرم کی راہنمائی مل جائے گی اور کم از کم ذہنی طور پر اطمنان ہوگا اور سال دو سال میں ملاقات بھی میسر آجائے گی۔ عفیفہ اپنی خوشی سے اپنے زوجیت کے حقوق بھی معاف کرنے پر خوش ہے اور نہ ہی کوئی مطالبہ چاہتی ہے۔
تقریبا چھ سال تک یا بچوں کی بلوغت کے بعد نکاح کو ظاہر کردینگے، اسطرح عبداللہ بھی تیار ہے اور انہی شرائط پر عبداللہ بھی راضی ہے۔
مذکورہ صورت میں دونوں کے لئے شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا اسطرح نکاح جائز ہوگا؟ کیا جانبین اسطرح شریعت کی رو سے زندگی گزار سکتے ہیں اور اخروی زندگی پر کوئ اثر ہوئے بغیر یہ نکاح کرسکتے ہیں؟ جزاک اللہ خیرا
جواب:
جب تک بچوں کو ماں کی ضرورت ہے اس وقت تک وہ ماں کے پاس ہی رہیں گے، جبکہ بچوں کا باپ نان و نفقہ دینے کا پابند ہے۔ تاہم عفیفہ کو دوسرے نکاح سے روکنے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ عفیفہ کو دوسری شادی سے روکنا حکمِ الٰہی کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
البقرة، 2: 232
اس لیے کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عفیفہ کو دوسرا نکاح کرنے سے روکے۔ عفیفہ علیٰ الاعلان نکاح اور ازدواجی حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ نکاح پر اس کا سابقہ شوہر بچے واپس لینے کا مجاز نہیں ہے، جب تک کہ وہ بچوں کو اپنے پاس رکھنے سے انکار نہ کردے یا اس کا گھریلو ماحول بچوں کی تربیت کے لیے سازگار نہ رہے۔ بصورت دیگر بچے والدہ کے پاس رہیں گے اور ان کے اخراجات ان کے والد کے ذمہ ہوں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔