معتوہ کی تحریری طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3789
السلام علیکم! معتُوہ کی طلاق کے ضمن میں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ [صورتِ مسئولہ] ایک شخص جسے جید مفتیان "معتُوہ" یعنی بہکا ہوا اور ذہنی طور پر غیر صحتمند قرار دے چکے ہوں اور در ایں حال اُس کی دی گئی طلاق کو باطل اور غیرمؤثر قرار دے دیا گیا ہو، کیا ایسے شخص کی ذہنی، دماغی اور نفسیاتی پسماندگی کی حالت میں تحریری طلاق مؤثر ہوگی؟ یا اس پر وہی حکم نافذ ہوتا ہے جو کہ اسی شخص کی تقریری طلاق پر ہے؟ واضح رہے کہ مذکورہ شخص مکمل مجنون نہیں، پاگلوں کی طرح سرِعام کپڑے پھاڑتا ہے اور نہ ہی ہزیان بکتا ہے۔ عام اور نارمل زندگی میں وہ ایک اعلئ تعلیم یافتہ اور ذمہ دار انسان ہے، مگر خانگی مسائل اور دیگر عوامل کی ِبناء پرشدید ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوا، معالج کی تشخیص کے بعد اس کا علاج بھی ہوا اور اسے ذہنی سُکون آور ادویات دی گئیں۔ مفتیانِ کرام نے بھی بدیہی صورت حال اور شرعی گواہوں کی شہادت پر اسے’معُتوہ‘ قرار دیا ہے۔ کیا معتُوہ کی تحریراً دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ جزاک اللہ

  • سائل: محمد عبداللہمقام: کوئٹہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2016ء

زمرہ: طلاق  |  مریض کی طلاق

جواب:

مذکورہ شخص کی جو کیفیت آپ نے بیان کی ہے اس کیفیت میں دی گی طلاق معتبر نہیں ہے کیونکہ وقوعِ طلاق کے لیے شوہر کا عاقل و بالغ، بیدار اور ہوش وحواس کی حالت میں ہونا شرط ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتی يستيقظ، وعن الغلام حتی يحتلم، و عن المجنون حتی يفيق.

’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا: سونے والاجب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنون جب تک سمجھدارنہ ہوجائے۔‘‘

  1. ابن حبان، الصحيح، 1: 355، رقم 142، موسسة الرسالة، بيروت

  2. ابوداود، السنن، 4: 141، رقم 4403، دارالفکر

  3. بيهقی، السنن الکبری، 3: 83، رقم 4868، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیاہے:

رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتی يستيقظ، وعن الصغير حتی يکبر، و عن المجنون حتی يعقل او يفيق.

’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا: سونے والے پر جب تک وہ بیدار نہ ہوجائے، چھوٹے (بچے) پر جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنون پر جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہوجائے۔‘‘

  1. نسائی، السنن الکبری، 4: 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت

  2. ابن ماجه، السنن، 1: 658، رقم 2041، دارالفکر، بيروت

ایک اورحدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کل طلاق جائز الا طلاق المعتو.

’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے۔‘‘

  1. ابن ابي شيبه، المصنف، 4: 72، رقم 17914، مکتبة الرشد الرياض
  2. عبدالرزاق، المصنف، 6: 409، رقم 11415، المکتب الاسلامي، بيروت
  3. علی بن جعد، المسند، 1: 120، رقم 742، موسسة نادر، بيروت

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

کل طلاق جائز الا طلاق المعتوه و المغلوب علی عقله.

’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر (غصہ یا پاگل پن کا) غلبہ ہو۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، 3: 496، رقم 1191، داراحياء التراث العربي، بيروت

  2. هندي،کنزالعمال، 9: 27771، دار الکتب العلمية، بيروت

معتوہ اور مجنون کی طلاق کے متعلق فقہائے کرام کی رائے ہے کہ:

اراد بالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه و احسن الاقوال في الفرق بينهما ان المعتوه هو القليل الفهم المختلط الکلام الفاسد التدبير لکن لايضرب و لايشتم بخلاف الجنون و يدخل المبرسم و المغمي عليه و المدهوش.

 جنون (پاگل پن) کامطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل  آنا، اس میں معتوہ بھی شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو۔ لیکن معتوہ نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنون کے۔ اس میں سرسام والا، بیہوش اورمدہوش داخل ہیں۔

ابن نجيم الحنفي، البحر الرائق، 3: 268، دارالمعرفة، بيروت

اس لیے اگر مذکورہ شخص واقعتاً اس کیفیت کا شکار ہے جو سوال میں بیان کی گئی ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوئی، چاہے زبانی تھی یا تحریری۔ کیونکہ ایسی کیفیت میں اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت معطل تھی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی