جواب:
علم نجوم یا ستارہ شناسی کوئی باقاعدہ علم نہیں ہے۔ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہے۔ علمِ نجوم کے ایسے کوئی اصول و قوانین نہیں کہ جن کے استعمال اور ستاروں براہ راست مشاہدے سے آئندہ ہونے والے واقعات کی یقینی خبر دی جاسکے۔
قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں مستقبل کی خبریں دینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی و کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ ’گرتے کو تنکے کا سہارا‘ کے مصداق پریشان حال لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پراُمید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا:
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَيْبَ اِلاَّ اﷲُط
’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے‘‘
النمل، 27 : 65
احادیث مبارکہ میں بھی علم نجوم کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے:
أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اﷲِ عَنِ الْکُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اﷲِلَيْسُوا بِشَيْئٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْئِ يَکُونُ حَقًّا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ تِلْکَ الْکَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَهِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَکْثَرَ مِنْ مِائَهِ کَذْبَةٍ.
’’حضرت یحییٰ بن عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بعض لوگوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ایسی بات بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہے۔ تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ درست بات جنات کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے دل میں ڈالتے ہیں۔ جیسے ایک مرغ دوسرے مرغ کے کان میں آواز پہنچا دیتا ہے اور پھر کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیا کرتا ہے۔ ‘‘
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّی لَنَا رَسُولُ اﷲِ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوا: اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِهِ فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.
’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر بارش والی رات کو ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی۔ وہ میرا منکر اور ستاروں پر یقین رکھنے والا ہے۔‘‘
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ أُمُورًا کُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَةِ کُنَّا نَأْتِي الْکُهَانَ قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْکُهَانَ قَالَ، قُلْتُ: کُنَّا نَتَطَيَرُ قَالَ: ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُهُ أَحَدُکُمْ فِي نَفْسِهِ فَلَا يَصُدَّنَّکُمْ.
’’حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم زمانہ جاہلیت میں کچھ کام کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جاؤ، میں نے عرض کیا ہم بدشگونی لیتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (یعنی بدشگونی) محض تمہارے دل کا ایک خیال ہے تم اس کے در پے نہ ہو۔‘‘
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
’’حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کاہن کے پاس جاکر کوئی بات پوچھی اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور سوچ دی ہے۔ اسے ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ نجومیوں، جادوگروں، عاملوں، طوطے والوں اور کاہنوں کی خبروں پر یقین رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ قدرت پر یقین کامل ہو تو پھر اس قسم کی توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
جب ستارہ شناسی باقاعدہ علم ہی نہیں اور آیات و روایات میں بھی اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو اس کا سیکھنا ایمان اور وسائل ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔