جواب:
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں ہی ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک بطن سے پیدا ہوئیں۔ یہ چاروں سیدزادیاں ہیں۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے دو کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا، جن میں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تیسری صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ابوالعاص سے کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ابوالعاص دونوں اموی تھے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح اموی مردوں کے ساتھ کرنے کے بعد کبھی نہیں فرمایا کہ آج کے بعد کسی ہاشمی لڑکی کا غیرہاشمی لڑکے کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب و نسب، جاہ وجلال، مال و زر اور ذات و براردری رکھنے کی بجائے تقویٰ، پرہیزگاری، خوف خدا جیسی صفات عالیہ پر موقوف کی ہے۔
آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں بھی ہم نے قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا تھا کہ سیدہ لڑکی کے غیرسید لڑکے کے ساتھ نکاح میں کی شرع میں کوئی ممانعت نہیں، (ملاحظہ ہو: کیا سید کا غیرسید سے نکاح جائز ہے؟)۔ اگر آپ کے پاس ممانعت کی قرآن و حدیث پر مبنی دلیل موجود ہے تو پیش کردیں۔ اگر آپ کے دلائل ہماری دلیل سے زیادہ قوی ہوئے تو ہم اپنے مؤقف سے رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔
معاذاللہ ہمارا دعویٰ اور عقیدہ یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد علیہم السلام کی برابری کرسکتا ہے۔ اگر ایک پڑھی لکھی سید زادی کا نکاح اس کی پسند کے پڑھے لکھے غیرسید کے ساتھ کر دیا جائے تو غیرسید، سید نہیں بن جائے گا بلکہ یہ شرعی احکام کے عین مطابق عمل ہوگا۔ اس کی بجائے ایک پڑھی لکھی سیدہ کا نکاح زبردستی ایک ان پڑھ، بےروزگار اور جرائم پیشہ کے ساتھ صرف اس لیے کر دیا جائے کہ ہماری انا غیرسید کے ساتھ نکاح کی اجازت نہیں دیتی، شرعاً یہ نکاح جرم ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔