جواب:
تحائف لینے اور دینے کے حوالے سے حدیث مبارکہ ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ: تَهَادُوْا تَحَابُّوْا
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کو تحائف (gifts) دیا کرو۔ اور ایک دوسرے سے محبت کیا کرو۔‘‘
لہٰذا تمام اعزاء واقارب اور دوستوں کو تحفہ دے سکتے ہیں خواہ عیدی ہو یا کسی اور صورت میں، لیکن نیت وارادہ درست ہونا چاہیے۔ اس کے پیچھے کوئی غلط مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اس بہانے سے غلط حرکات کرے تو اُسے ضرور روکنا چاہیے۔
غیر محرم رشتوں سے بات چیت کرنے کے بارے میں قرآن وحدیث کی تعلیمات درج ذیل ہیں:
يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔‘‘
الاحزاب، 33: 32
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ اَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ اﷲَ اَعَانَنِي عَلَيْهِ فَاَسْلَمُ
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ يَا رَسُولَ اﷲِ اَفَرَاَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا (نامحرم) عورت کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔‘‘
یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَاَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ امْرَاَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَاَتِکَ
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذمی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے غیرمحرم رشتوں کے ساتھ فضول گپ شپ کرنا ممنوع ہے، لیکن ضروری بات چیت کرنا، حال احوال پوچھنا، اور والدین یا محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں تحائف لینا دینا جائز ہے۔ تاہم تنہائی میں غیرمحرم خواتین و افراد کو اکٹھا ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ اس کی وضاحت قرآن و حدیث کی روشنی میں کر دی گئی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔