جواب:
سئل ابن عباس رضی الله عنه عن رجل يبعث بذکره حتی ينزل فقال ابن عباس ان نکاح الامة خير من هذا و هذا خير من الزنا.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنے آلہ تناسل سے کھیلتا ہے، حتی کہ اس کو انزال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے اور یہ زنا سے بہتر ہے۔
ناکح اليد ملعون.
ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے۔
(ردالمحتار، 2 : 137-136)
علامہ علاءالدین حنفی لکھتے ہیں کہ استمناء بالید مکروہ تحریمی ہے۔
امام شافعی کا قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ البتہ بیوی یا باندی کے ہاتھ سے استمناء کرانا جائز ہے۔
صاحب در مختار یہ نقل کرتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔
انسان اگر حصول شہوت کے لیے یہ عمل کرے گا تو گنہگار ہوگا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے اور پانی کو بہانا اور شہوت کو غیر محل میں پورا کرنا حرام ہے۔
علامہ ابو للیث نے کہا ہے کہ شہوت کی توجہ، حصول اور تجسس کی خاطر استمناء گناہ ہے۔
علامہ ذیلعی نے استمناء بالکف کے عدم جواز پر اس سے استدلال کیا۔
قرآن مجید میں آیا ہے :
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ o إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo
(المومنون، 23 : 6-5)
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔
انسان کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے عضو خاص کو رگڑے، کیونکہ اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے عضو کا علی الاطلاق مالک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنے وجود کا، جسم کا، حتی کہ اپنے اعضاء کا مالک ہی نہیں تو وہ ان اعضاء کو شہوت، غلط کاری یا گناہ کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے استمناء بالکف کیا تو اس نے حرام کام کیا اور اس کا یہ فعل حرام تصور ہوگا۔ ہاں اگر اس کا انزال ہوگیا تو اس کا روزہ بھی فاسد ہو جائے گا۔
(المغنی، جلد: 3)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔