سوال نمبر:3674
السلام علیکم! میرے والد کویت رہتے تھے۔ زمین میری والدہ کے نام لی گئ اور اس پر مکان تعمیر ہوا۔ لہذا مکان خود ہی والدہ کے نام ہو گیا۔ بعد ازاں والد خرچ کی غرض سے گھر پیسے بھیجتے رہے جن میں سے بچت کر کے والدہ نے ایک چھوٹا مکان والد کے نام پر خرید لیا۔ والد نے کمانا بند کر دیا اور پاکستان میں ہی رہنے لگے۔ میں بڑا بیٹا ہوں خرچ کی ذمہ داری میں نے اٹھائی ہوئی ہے۔ 2 بہن اور 4 بھائیوں کی شادیاں کیں اور پہلے والے مکان کا بالائی حصہ بھی تعمیر کروایا۔ اس اثناء میں والد اور والدہ کی طلاق ہو گئ۔ تب میری والدہ نے پہلے والا مکان اولاد کے نام منتقل کروا دیا جبکہ بعد میں خریدا جانے والا مکان والد نے فروخت کر کے پیسے اپنی ذات پر خرچ ڈالے۔ اب میری والدہ انتقال پاچکی ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اگر والد کا حصہ ہے تو کتنا۔ اور زیور جو بیٹوں نے والدہ کو دیا تھا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟
- سائل: محمد سلمان سلیممقام: پاکستان
- تاریخ اشاعت: 28 جولائی 2015ء
جواب:
آپ کے بقول آپ کی والدہ نے اپنی زندگی میں ہی مذکورہ مکان اولاد کے نام منتقل کردیا
تھا، تو اس مکان کو والدہ کے ترکے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جو اشیاء
آپ کی والدہ مرحومہ کے نام ہیں ان کو ورثاء میں ان کے مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کیا
جائے گا۔ آپ کی والدہ کے ترکے سے آپ کے والد کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ طلاق دینے کے
بعد وہ میاں بیوی نہیں رہے۔ ورثاء میں صرف آپ کی والدہ کی اولاد اور ان کے والدین (اگر
زندہ ہیں) شامل ہیں۔
نوٹ: طلاق کے بعد اگر دوران عدت میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کی وفات ہوجائے تو انہیں ایک دوسرے کی وراثت سے حصہ ملتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں رہتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔